ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2007 |
اكستان |
|
کلیجہ میں ٹھنڈ پڑگئی ہو۔ ایسے جملے بھی سُننے میں آئے کہ'' اچھا ہوا اِنہیں بھی پتہ چلے کہ ہم غریبوں کے دِلوں پر کیا گزر رہی ہے اور ہمارے دِن رات کیسے کٹ رہے ہیں''۔ گزشتہ ماہ کے وسط میں غالبًا لاہور ہائی کورٹ کے ریمارکس اَخبارات میں سب ہی نے پڑھے کہ ''اگر پولیس کی کارکردگی کا یہی حال رہا تو پولیس کا شعبہ کسی اور ایجنسی کے سپرد کرکے اِس کے اکائونٹس منجمد کردیے جائیں گے ''جبکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ مایوسی کا شکار ہوکر یہ بیان دے چکے ہیں کہ'' پولیس کو جدید سہولیات فراہم کرنے کے باوجود بھی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی''۔ سرکاری اِدارے خود تسلیم کررہے ہیں کہ لاہور میں گزشتہ چھ برس کے عرصہ میں جرائم کی شرح دوگنا بڑھ گئی ہے مگر دوسری طرف پولیس کی دیدہ دلیری کا یہ حال ہے کہ ہائی کورٹ کے رُوبرو آئی جی نے اپنی پیش کردہ رپورٹ میں آبادی میں اِضافہ اور عوام الناس کے معاشی صورتِ حال کے باعث جرائم کے اِسی اضافہ کو نار بل قرار دیا ہے حالانکہ لاہور کی آبادی ایک برس پہلے اگر ایک کروڑ تھی تو اَب ایک برس بعد دو کروڑ کو نہیں پہنچی۔ مگر اپنی خامیاں دُور کرنے کے بجائے پُرانے طریقہ واردات کے مطابق آئی جی صاحب معاملہ کو ہائی کورٹ کے رُوبرو اندھے اَعداد و شمار کی بھینٹ چڑھانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ رعیت اور حکمرانوں کے درمیان نفرت اور غُصّہ کی بڑھتی ہوئی اِس خلیج کو پاٹنے کی اگر اَب بھی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو پھر وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اور حالات کو قابو میں لانا کسی کے بس میں نہ رہے گا۔ حکمران طبقہ اور نوکرشاہی کو چاہیے کہ تکبر و نخوت ترک کرکے اپنے کو رَعیت کا خادم جانے۔ اِن کے دُکھ دَرد کو اپنا دُکھ دَرد سمجھے۔ حالات کا واحد حل بھی یہی ہے ورنہ عوامی بغاوت سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہالے جائے گی اور یہ صورت کسی بھی طرح ملک و ملت کے لیے مفید نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اہل ِ اقتدار کو نوشتہ ٔدیوار پڑھ کر اُس کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین۔