ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
حضرت سلمان سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا دیکھو مجھ سے بغض نہ رکھنا ورنہ دین سے بالکل جدا ہو جائوگے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ بھلا آپ سے کیسے بغض رکھ سکتا ہوں، آپ ہی کے طفیل تو اللہ نے ہم کو ہدایت نصیب فرمائی ۔فرمایا عرب سے بغض رکھو گے تو مجھ سے بغض رکھنے لگو گے''۔(اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیاہے ) (ترجمان السنة ص ٣٥٧ ج ١ ) فائدہ : مولانا بدر عالم صاحب مہاجر مدنی اس حدیث کے حواشی میں فرماتے ہیں کہ اسلام میں محبت کا مرکز صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ رسول کی محبت خدا کی محبت کی وجہ سے ہے اور عرب کی محبت اس لیے ہے کہ وہ خدا کے برگزیدہ رسول کی محبوب قوم ہے ۔ باقی عرب کے کسی خاص شخص سے اُس کی بداعمالی کی وجہ سے عداوت عرب کی عداوت نہیں کہلاتی ۔ عرب آنحضرت ۖ کی قوم ہے اس لیے وہ ہمیشہ نظروں میں محبوب ر ہنی چاہیے۔ (ملخصاً) باقی رہا اصل مسئلہ کہ عجمی زبان میں ان کلمات کے ساتھ دُعاء کرنا منع ہے جن کے معنی نہ جانتاہو،کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ دعا کفریہ الفاظ پر مشتمل ہو اور یہی حکم رقیہ ،منتر، جنتر، اقسون اور طلسم کا ہے۔ چنانچہ حدیقة الندیہ شرح طریقہ محمدیہ ص ٣٩١ ج٢ میں شیخ عبدالغنی نابلسی فرماتے ہیں : قال المازری جمیع الرّقٰی جائزة اذا کانت بآیات اللّٰہ اوبذکرہ و ینھٰی عنہ اذا کانت باللّغّة العجمیة اوبما لا یدری معناہ لجواز ان یّکون فیہ کفر۔ ''مازری فرماتے ہیں کہ آیاتِ قرآنیہ اور اسماء الہٰیہ کے ساتھ جھاڑ پھونک جائز ہیںالبتہ اگر وہ منتر، افسوں عجمی زبان میں ہوں اور معنی سے بھی واقفیت نہ ہو تو یہ منہی عنہ ہے ،کیونکہ ہو سکتا ہے وہ کفریہ الفاظ پر مشتمل ہو''۔ باقی عجمی شخص اگر اپنی زبان میں دُعاء کرے تو اُس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو سب زبانوں کو جانتے ہیں بلکہ اپنی زبان میں دعاء کرنا بایں معنی موزوں و مناسب ہے کہ دعاء کرنے والا جو کچھ کہناچاہتا ہے وہ سوچ سمجھ کر حضورِ قلب کے ساتھ کہہ سکتا ہے ۔ (واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم واحکم ) (جاری ہے)