ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
''اور عربی زبان کو دوسری زبانوں پر خاص فضیلت حاصل ہے حتی کہ جو شخص عربی زبان میں گفتگو کرنے کی مہارت رکھتا ہو اُس کے لیے کسی دوسری زبان میں گفتگو کرنا مکروہ ہے''۔ اور حدیقہ الندیہ شرح طریقہ محمدیہ ص ٢٢٤ ج١ میں اسی مقام پرشیخ عبدالغنی نابلسی فرماتے ہیں : قال الحلیمی لا ینبغی لاحدٍ اطلاق لسانہ بتفضیل العجم علی العرب بعد ما بعث اللّٰہ تعالٰی افضل رسلہ من العرب وانزل آخرکتبہ بلسان العرب فصار فرضاً علٰی النّاس ان یتعلّموا الغة العرب لیعقلوا عن اللّٰہ امرہ ونھیہ ومن ابغض العرب او فضّل العجم علیھم فقد اذٰی بذالک رسول اللّٰہ ۖ لانّہ اسمعہ فی قومہ خلاف الجمیل ومن اذاہ فقد اذی اللّٰہ تعالٰی ذکرہ المنا وی فی شرح جامع الصغیر للسّیوطی۔ ''حلیمی فرماتے ہیں کہ عرب کے بالمقابل عجم کو فضیلت دینے کے متعلق کسی شخص کو زبان کھولنا مناسب نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے افضل پیغمبر کو عرب ہی سے مبعوث فرمایا اور اپنی آخری کتاب کو بھی عرب کی زبان میں نازل فرمایا ۔ پس لوگوں پر لازم ہے کہ عربی زبان سیکھیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات امر ونہی کو سمجھ سکیں اور جو شخص عرب سے بغض رکھے گا یا عجم کو عرب سے افضل سمجھے گا تو آنحضرت ۖ کی قوم کے حق میں اس قسم کے مبغوض خیالات رکھنے سے آنحضرت ۖ کو ایذا پہنچائے گا اور جس (بدبخت) نے حضور ۖ کو ایذا پہنچائی تو اُس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی ۔اس کو جامع صغیر کی شرح میں علامہ عبدالرؤف منادی مصری نے بیان کیا ہے''۔ فائدہ : یہاں امام حلیمی کے ارشاد سے عربی زبان کی فضیلت اور اُس کی تعلیم و تعلم کی اہمیت بھی واضح ہوگئی مگر ساتھ ساتھ عرب کی محبت کا بھی ذکر آگیا ہے ۔ اگرچہ ادب مذکورسے اس کی مناسبت نہیں مگر محبت عرب کی اہمیت کے متعلق ایک حدیث ضمناً عرض کردیتا ہوں تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب قوم کی شان نمایاں ہوجائے۔ عن سلمان قال قال لی رسول اللّٰہ ۖ لا تبغضنی فتفارق دینک قلت یارسول اللّٰہ کیف ابغضک وبک ھدانا اللّٰہ قال تبغض العرب فتبغضنی۔(رواہ الترمذی)