ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
حضرت گنگوہی اورحضرت نانوتوی کے ہم عصر تھے، باباجی نے جنگ ِآزادی ١٨٥٧ء میں شرکت کی تھی آپ کی پیدائش ١٨٢٣ء میں بغداد میں ہوئی تھی اور ١٩٨٥ء میں اسلام آباد میں آپ کا انتقال ہوا تھا ۔باباجی نے پہلا حج ١٨٥٧ء کے بعد کیا تھا اگلے سال دوسرا حج پیدل کیا تھا اسی دوسرے حج میں باباجی عبدالمعبود کو حضرت سنڈا کے بابا جی کی معیت نصیب ہوئی تھی ، انتہیٰ مختصراً مرتب ''راہِ وفا'' کی تحریر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ محض سنی سنائی فرضی باتوں پر مبنی ہے اس میں ذرا بھی تحقیق وتفتیش سے کام نہیں لیا گیا۔ قارئین محترم !ہم نے باباجی عبدالمعبود کے تذکرہ میں حضرت مفتی زین العابدین رحمہ اللہ کے خط کا تذکرہ کیا ہے جس میں آپ نے ١٩٦١ء میں باباجی کی عمر ٦٥ برس بتلائی ہے جو باباجی کے پاسپورٹ میں درج تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باباجی کی پیدائش ١٨٩٦ء میں ہوئی ہے نہ کہ ١٨٢٣ء میں۔ ایسی صور ت میں آپ خود ہی غور فرمائیں کہ کیا باباجی عبدالمعبود حضرت حاجی امداد اللہ صاحب، حضرت نانوتوی اورحضرت گنگوہی کے ہم عصر ہو سکتے ہیں؟ اور کیا وہ جنگِ آزادی ١٨٥٧ء میں جو کہ اُن کی پیدائش سے تقریباً ٣٨ـ ٣٩ برس پہلے ہوئی ہے اس میں شریک ہو سکتے ہیں؟ باباجی عبدالمعبود صاحب کے بارہ میں'' راہِ وفا'' کے مرتب فرماتے ہیں کہ و ہ حضرت سنڈا کے باباجی کی معیت میں رہے ۔سوال یہ ہے کہ اس زمانہ میںتو حضرت سنڈا کے باباجی کے شیخُ الشیخ حضرت اخوند عبدالغفور صاحب ِسوات حیات تھے جو شیخ المشائخ اورامام المجاہدین کادرجہ رکھتے تھے باباجی اُن سے کیوںنہیں ملے ؟ اور اُن کے ساتھ مل کر انگریزوں سے جہاد کیوں نہیںکیا؟ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ بابا جی عبدالمعبود کی حضرت سنڈاکے باباجی کی معیت میں رہنے اوراُن کے ساتھ حج کرنے کی ساری کہانی فرضی اور من گھڑت ہے جوباباجی عبدالمعبود نے اپنی وضعی عادت کے مطابق گھڑ کر مولانا عبدالرحیم صاحب کو سنائی ہے اور مولانا عبدالرحیم صاحب نے ان کی شخصیت سے واقف نہ ہونے کی بناء پر نہایت سادگی سے اسے قبول کر لیا ہے۔ اس کہانی کے وضعی ہونے کی پہلی وجہ تو وہی ہے کہ اُس وقت تو باباجی عبدالمعبود پیدابھی نہیں ہوئے تھے پھر اُنہیں حضرت سنڈا کے بابا جی کی معیت کیسے نصیب ہوئی دوسرے ذرا اِس پر بھی غور فرمائیں کہ اگر ہم راہ وفا کے مرتب کے بیان کے مطابق مان لیں کہ باباجی عبدالمعبودکی پیدائش ١٨٢٣ء کی ہے تو ١٨٥٧ء میں اُن کی عمر تقریباً ٣٤ـ٣٥ برس بنتی ہے اور باباجی نے ١٨٥٧ء کے بعد حج کیا اور دوسرے حج میں انہیں حضرت سنڈا کے باباجی کی معیت نصیب ہوئی اس لحاظ سے تقریباً بابا جی عبدا لمعبود کی عمر کم از کم چالیس سال یا اس کے لگ بھگ ہونی چاہیے جو کہ اچھی خاصی عمر ہوتی ہے اوراس عمر میں آدمی صاحب ِ اولاد ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس حضرت سنڈاکے بابا جی کی کرامت کے ذیل میں حضرت باباجی کی جو دعا نقل کی گئی ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں ''یا اللہ میرے ساتھ ایک لڑکا ہے اسے بہت پیاس لگ رہی ہے آپ اس کے لیے پانی دے دیں '' اِس سے معلوم ہو رہا ہے کہ باباجی عبدالمعبود اس وقت لڑکے تھے، کیا چالیس سال کے لگ بھگ عمر والے شخص کو لڑکا کہا جا سکتا ہے ؟ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب کہانی فرضی ہے پھر اس میں