Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004

اكستان

58 - 66
حضرت گنگوہی  اورحضرت نانوتوی کے ہم عصر تھے، باباجی نے جنگ ِآزادی ١٨٥٧ء میں شرکت کی تھی آپ کی پیدائش ١٨٢٣ء میں بغداد میں ہوئی تھی اور ١٩٨٥ء میں اسلام آباد میں آپ کا انتقال ہوا تھا ۔باباجی نے پہلا حج ١٨٥٧ء کے بعد کیا تھا اگلے سال دوسرا حج پیدل کیا تھا اسی دوسرے حج میں باباجی عبدالمعبود کو حضرت سنڈا کے بابا جی کی معیت نصیب ہوئی تھی ، انتہیٰ مختصراً 
	مرتب ''راہِ وفا'' کی تحریر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ محض سنی سنائی فرضی باتوں پر مبنی ہے اس میں ذرا بھی تحقیق وتفتیش سے کام نہیں لیا گیا۔ قارئین محترم !ہم نے باباجی عبدالمعبود کے تذکرہ میں حضرت مفتی زین العابدین رحمہ اللہ کے خط کا تذکرہ کیا ہے جس میں آپ نے ١٩٦١ء میں باباجی کی عمر ٦٥ برس بتلائی ہے جو باباجی کے پاسپورٹ میں درج تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باباجی کی پیدائش ١٨٩٦ء میں ہوئی ہے نہ کہ ١٨٢٣ء میں۔ ایسی صور ت میں آپ خود ہی غور فرمائیں کہ کیا باباجی عبدالمعبود حضرت حاجی امداد اللہ صاحب، حضرت نانوتوی اورحضرت گنگوہی  کے ہم عصر ہو سکتے ہیں؟ اور کیا وہ جنگِ آزادی ١٨٥٧ء میں جو کہ اُن کی پیدائش سے تقریباً ٣٨ـ ٣٩ برس پہلے ہوئی ہے اس میں شریک ہو سکتے ہیں؟
	باباجی عبدالمعبود صاحب کے بارہ میں'' راہِ وفا'' کے مرتب فرماتے ہیں کہ و ہ حضرت سنڈا کے باباجی کی معیت میں رہے ۔سوال یہ ہے کہ اس زمانہ میںتو حضرت سنڈا کے باباجی کے شیخُ الشیخ حضرت اخوند عبدالغفور صاحب ِسوات حیات تھے جو شیخ المشائخ اورامام المجاہدین کادرجہ رکھتے تھے باباجی اُن سے کیوںنہیں ملے ؟ اور اُن کے ساتھ مل کر انگریزوں سے جہاد کیوں نہیںکیا؟ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ بابا جی عبدالمعبود کی حضرت سنڈاکے باباجی کی معیت میں رہنے اوراُن کے ساتھ حج کرنے کی ساری کہانی فرضی اور من گھڑت ہے جوباباجی عبدالمعبود نے اپنی وضعی عادت کے مطابق گھڑ کر مولانا عبدالرحیم صاحب کو سنائی ہے اور مولانا عبدالرحیم صاحب نے ان کی شخصیت سے واقف نہ ہونے کی بناء پر نہایت سادگی سے اسے قبول کر لیا ہے۔ اس کہانی کے وضعی ہونے کی پہلی وجہ تو وہی ہے کہ اُس وقت تو باباجی عبدالمعبود پیدابھی نہیں ہوئے تھے پھر اُنہیں حضرت سنڈا کے بابا جی  کی معیت کیسے نصیب ہوئی دوسرے ذرا اِس پر بھی غور فرمائیں کہ اگر ہم راہ وفا کے مرتب کے بیان کے مطابق مان لیں کہ باباجی عبدالمعبودکی پیدائش ١٨٢٣ء کی ہے تو ١٨٥٧ء میں اُن کی عمر تقریباً ٣٤ـ٣٥ برس بنتی ہے اور باباجی نے ١٨٥٧ء کے بعد حج کیا اور دوسرے حج میں انہیں حضرت سنڈا کے باباجی کی معیت نصیب ہوئی اس لحاظ سے تقریباً بابا جی عبدا لمعبود کی عمر کم از کم چالیس سال یا اس کے لگ بھگ ہونی چاہیے جو کہ اچھی خاصی عمر ہوتی ہے اوراس عمر میں آدمی صاحب ِ اولاد ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس حضرت سنڈاکے بابا جی کی کرامت کے ذیل میں حضرت باباجی کی جو دعا نقل کی گئی ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں ''یا اللہ میرے ساتھ ایک لڑکا ہے اسے بہت پیاس لگ رہی ہے آپ اس کے لیے پانی دے دیں '' اِس سے معلوم ہو رہا ہے کہ باباجی عبدالمعبود اس وقت لڑکے تھے، کیا چالیس سال کے لگ بھگ عمر والے شخص کو لڑکا کہا جا سکتا ہے ؟ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب کہانی فرضی ہے پھر اس میں

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
88 اس شمارے میں 3 1
89 حرف آغاز 4 1
90 درس حدیث 7 1
91 اللہ تعالیٰ کی حضرت عبداللہ سے بلا حجاب گفتگو 7 90
92 ظاہری اور باطنی مدد : 8 90
93 شہادت اور اللہ تعالی سے ہم کلامی : 8 90
94 جنت میں رُوح جسم پر غالب ہوگی : 8 90
95 شہادت سے ایک رات قبل اپنے بیٹے سے گفتگو : 9 90
96 اللہ اور شہید کے درمیان مکالمہ : 9 90
97 اوا گون کا بطلان حدیث سے : 9 90
98 شہید زندہ ہوتا ہے : 9 90
99 دوسری قسم کی ظاہری مدد : 10 90
100 معجزے کا ظہور : 10 90
101 قرض اور قرض خواہوں کی فکر : 10 90
102 خدا کی رضا اور بھروسہ کی برکت : 11 90
103 قبر میں شہید کا جسم سالم رہا : 11 90
104 چہل احادیث متعلقہ رمضان و صیام 12 1
105 روزہ کی حفاظت : 13 104
106 قیام ِرمضان 13 104
107 رمضان اور قرآن : 13 104
108 رمضان میںسخاوت : 14 104
109 روزہ افطار کرانا : 14 104
110 روزہ میں بُھول کر کھا پی لینا : 14 104
111 سحری کھانا : 14 104
112 افطار کرنا : 14 104
113 روزہ جسم کی زکٰوة ہے : 15 104
114 سردی میں روزہ : 15 104
115 جنابت روزہ کے منافی نہیں : 15 104
116 روزہ میںمسواک : 15 104
117 روزہ میںسُرمہ : 16 104
118 اگر روزہ دار کے پاس کھایا جائے : 16 104
119 آخر عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام : 16 104
120 شب ِقدر : 16 104
121 آخری رات میں بخششیں : 17 104
122 عید کا دن : 17 104
123 رمضان کے بعد دواہم کام : 17 104
124 صدقہ فطر : 17 104
125 شش عید کے روزے : 18 104
126 چند مسنون دُعائیں : 18 104
127 افطار کی ایک اور دُعا ء : 18 104
128 شب ِقدر کی دُعا : 18 104
129 وفیات 19 1
130 زکٰو ة...............احکام اور مسائل 20 1
131 تعریف ،حکم اور شرطیں 23 130
132 تعریف : 23 130
133 حکم : 23 130
134 شرطیں : 24 130
135 مال ،زکٰوة او ر نصاب 24 130
136 کس کس مال میں زکٰوة فرض ہے : 24 130
137 سرکاری نوٹ : 24 130
138 جواہرات : 24 130
139 برتن اور مکانات وغیرہ : 24 130
140 مالِ تجارت : 24 130
141 نصاب کسے کہتے ہیں : 25 130
142 چاندی کا نصاب اور اُس کی زکٰوة : 25 130
143 سونے کا نصاب اور اُس کی زکٰوة : 25 130
144 تجارتی مال کا نصاب : 25 130
145 اصل کے بجائے قیمت : 25 130
146 ادُھورے نصاب : 26 130
147 زکٰوة کب ادا کی جائے : 26 130
148 نیت : 27 130
149 کیا بتانا ضروری ہے ؟ : 27 130
150 پوری یا تھوڑی زکٰوة کب ساقط ہو جاتی ہے : 27 130
151 مصارفِ زکٰوة 27 130
152 مصارفِ زکٰوة کون کون ہیں؟ : 27 130
153 کن لوگوں کو زکٰوة دینا جائز نہیں : 28 130
154 کن کاموں میں زکٰوة کا مال خرچ کرنا جائز نہیں ہے : 28 130
155 طلبہ علوم : 28 130
156 زکٰوة کن کو دینا افضل ہے : 29 130
157 ادا ء زکٰوة کا طریقہ : 29 130
158 مالک مکان کب زکٰوة لے سکتا ہے ،کب نہیں لے سکتا : 29 130
159 اداء زکٰوة میں غلطی : 29 130
160 جناب حضرت مولانا حاجی سیّد محمد عابد صاحب 30 1
161 حضرت مولانا رفیع الدین صاحب : 30 160
162 جامعہ مدنیہ جدید میں ختم ِمشکوة شریف 38 1
163 بیان حضرت مولانافضل الرحمن صاحب مدظلھم 38 162
164 بیان حضرت مولانا خالد محمود صاحب مدظلہم 42 162
165 بیان حضرت مولانا محمد حسن صاحبمدظلہم 43 162
166 صندل بابا جی ؟ 46 1
167 باباجی عبدالمعبود کی صدائے بازگشت 46 166
168 باباجی کی اصل حقیقت ؟ : 48 166
169 صندل باباجی : 53 166
170 صندل باباجی اور حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی کے درمیان واسطے ؟ 56 169
171 صندل باباجی کی تعلیمی خدمات؟ 56 169
172 بانی ریاست سوات اور جرنیل جہاد آزادی ؟ 57 169
173 دعاء کی افادیت و اہمیت 60 1
174 اخبا ر الجامعہ 63 1
175 دینی مسائل 64 1
176 ( سجدہ تلاوت کا بیان ) 64 175
Flag Counter