ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
ور علمی استفسارات کرنا ہے تو یہ بھی محلِ نظر ہے اولاً تو اس لیے کہ یہ باباجی کی نوعمری کازمانہ بنتا ہے جس میں اس قدر دُوردراز اور دشوار گزار راستوں کوطے کرکے گنگوہ جانا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور معلوم ہوتا ہے ۔ ثانیاً اس لیے کہ جو زمانہ باباجی کے استفادہ کا بتلایا گیاہے اس زمانہ میں حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی خدمت میں اکابر علماء و مشائخ مثلاً حضرت شیخ الہند ،حضرت مفتی عزیزالرحمن ،حضرت مولانا حبیب الرحمن ،حضرت مولاناعاشق الٰہی میرٹھی ،حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری رحمہم اللہ وغیرہم تشریف لایا کرتے تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی جگہ صندل باباجی کا تذکرہ نہیں کرتا ۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ نے آپ بیتی میں سینکڑوں علماء ومشائخ کا تذکرہ کیا ہے لیکن صندل باباجی کا کسی مقام پر کوئی ذکر توکجا اشارہ بھی نہیں کیا ۔ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ صندل باباجی کے پڑوس میںتحریک آزادی کے مجاہد اسیرمالٹا حضرت مولانا عزیر گل صاحب رحمہ اللہ سالہاسال رہتے رہے ہیں لیکن اُنہوں نے کبھی اپنے پڑوس میں رہنے والے باباجی کا تذکرہ نہیں کیا ،نہ ہی صندل باباجی کے اُن کے پاس جانے کا کوئی ذکر ملتا ہے۔ اگر کوئی عام آدمی ہوتو کہا جاسکتا ہے کہ اس کی طرف توجہ نہیں ہوئی لیکن جو شخص حضرت گنگوہی کا فیض یافتہ اور اس قدر معمر بتلایا جائے اس کا مخفی رہ جانا عجیب نظرآتا ہے۔ نیز یہ بات بھی سوچنے کے قابل ہے کہ باباجی کے دوصاحبزادے دارالعلوم حقانیہ کے فاضل ہیں لیکن دارالعلوم حقانیہ میں اس بات کاتذکرہ کبھی سننے میں نہیں آیا کہ یہاں حضرت گنگوہی کے فیض یافتہ بزرگ کے صاحبزادے پڑھتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ امر بھی لائق ِتوجہ ہے کہ صندل باباجی کے گائوں سے ہو کر آنے والے بہت سے حضرات اس بات کے شاہد ہیں کہ وہاں آس پاس کے لوگ باباجی کو اس حوالے سے قطعاً نہیں جانتے کہ وہ حضرت گنگوہی کے فیض یافتہ ہیں۔ اس بات پر بھی غور کر لیا جائے کہ بابا جی کو صحیح طرح بے تکلف اُردو بولنی نہیں آتی ۔اگر صندل بابا جی کا اتنے عرصہ حضرت گنگوہی کے پاس استفادہ کے لیے وہاں کسی مقام پرٹھہرنا ہوتا تو نا ممکن تھا کہ باباجی کو صحیح طرح اُردو بولنے پر قدرت نہ ہوتی۔ ان تمام شواہد سے یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ باباجی نے نہ حضرت گنگوہی سے دورۂ حدیث شریف پڑھا نہ اُن سے علمی استفسادہ کیا نہ وہ اُن کی خدمت میں رہے۔ ہمیں اس بات پر تعجب ہے کہ آخر اِن تمام شواہدسے صرفِ نظرکرتے ہوئے ''راہِ وفا'' والوں کا باباجی کو حضرت گنگوہی کا فیض یافتہ قرار دینے اور اسے شہرت دینے میں آخر کونسی حکمت کارفرما ہے؟