ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
ہے مگر خدا بھلا کرے ان علماء اُمت کا کہ جو ہر آڑے وقت میں اُمت کی راہنمائی کرکے کفر کی تاریکی سے ہدایت کے نور کی طرف لے آتے ہیں ۔اس موقع پر بھی اگر ضرورت پیش آئی تو وہ نہ صرف اُمت کی راہنمائی کریں گے بلکہ اس کے لیے کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں گے ۔یہ اس اُمت کی خصوصی شان ہے کہ جیسے اورجتنی محبت اُس کو حضرت محمد ۖ سے ہے ویسی ہی اوراتنی ہی قرآن پاک سے بھی ہے اورجتنی محبت قرآن ِ پاک سے ہے اُتنی ہی محبت حدیث شریف سے بھی ہے، ان تینوں میں سے کسی ایک کی محبت کو بھی مسلمانوں کے دلوں سے نہیں نکالا جاسکتا ہے اور وجہ اِس کی ظاہر ہے اس لیے کہ جتنے بھی انبیاء علیہم السلام حضرت محمد ۖ سے پہلے بھیجے گئے ہیں تو وہ ایک محدود مدت اور محدود خطہ اور محدود قوموں کے لیے بھیجے گئے یا حضرت محمد ۖ کی تشریف آوری تک وہ باقی رہے اور آپ کی تشریف آوری کے بعدپچھلی سب شریعتیں ختم ہو گئیں اور آپ کی شریعت کو قیامت تک کے لیے آنے والے انسانوں کے لیے حتمی اورقطعی دین قرار دے دیاگیا اب اِس میں کسی قسم کی کمی اور زیادتی نہیں ہو سکتی۔ یہ بنی نوع انسان کے لیے کامل ضابطہ ٔحیات ہے یہ اُسوۂ حسنہ اورفلاحِ دارین ہے، اس لیے پچھلے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا اور اُن سے محبت رکھنا جزو ایمان ہے جبکہ اُن کی کتب اور صحیفے بشرطیکہ اپنی اصل حالت پر ہوں ا ن میں تحریف نہ کی گئی ہوتو وہ قابل ِاحترام تو ہیں مگر قابلِ تقلید نہیں ہیں ،قابلِ تقلید بلکہ واجب ِتقلید صرف اورصرف قرآن پاک اور نبی علیہ السلام اور صحابہ کرام کی احادیث ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان قرآن اورحدیث کوسینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور جس طرح حضرت محمد ۖ سے محبت کرتے ہیں اسی طرح اُن پر نازل ہونے والی کتاب اوراُن کی حدیث سے بھی کرتے ہیں ۔ نبی علیہ السلام نے اپنی اُمت کو زوردے کر خبر دار کیا ہے کہ'' میں تمہارے اندر دوچیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اور جب تک تم اِن دونوں چیزوں کو تھامے رہو گے ہر گز گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اُس کے رسول کی سنت'' (مشکٰوة ص٣١ ج١)۔ ایک اورحدیث شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا کہ ہم یہودیوں سے بہت عجیب حدیثیں سنتے ہیں توجناب کی کیا رائے ہے کیا ہم اُن میں سے کچھ لکھ لیا کریں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم کو (اپنے دین کے معاملہ میں شک اور) تردد ہے جس طرح کہ یہود ونصاری کو ( اپنے دین کے معاملہ میں شک اور)تردد ہے حالانکہ میں تمہارے پاس ایسی ملت لایا ہوں جو کہ واضح ہے اور شک وشبہہ سے پاک ہے اور اگر بالفرض موسیٰ زندہ ہوتے تو اُن کے لیے میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا''۔( مشکٰوة ص٣٠ج١ ) اصل بات یہ ہے کہ کفار کی ہمیشہ سے یہ تمنا رہی ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی طرح اپنے دین کو چھوڑ کر اُن کے دین میں شامل ہو جائیں اورا ُس کے لیے وہ بہت دلفریب حربے استعمال کرتے رہتے ہیں ان کی اس بد خصلت کا قرآن پاک میں ذکر کرکے مسلمانوں کو ہمیشہ اُن سے خبردار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سورۂ نساء کی آیت نمبر٨٩ملاحظہ فرمائیں ۔ وَدُّوْا