ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
میںحاجی امداد اللہ صاحب کے ساتھ تھا، اکابر علماء دیوبند کی بات چل نکلتی تووہ اُن کا تذکرہ ایسے اندازسے کرتے جیسے وہ اُن کے سامنے کل کے بچے ہوں اوران کی کوئی حیثیت نہ ہو، حضرت نانوتوی اور حضرت گنگوہی رحمہمااللہ کا نام لیتے تو مولوی قاسم اور مولوی رشید کہتے۔ حضرت شیخ الہند کے بارہ میں کہتے کہ میں مولوی محمود کو مولوی احمدرضا خان کے پاس صلح کے لیے لے گیا تھا میں نے مولوی محمود کو باہر بٹھا دیا اور خود اندر جاکر مولوی احمد رضا خان سے بات کی پَر وہ نہیں مانے۔ ایک دفعہ یہ گوہر فشانی کی کہ مولوی اشرف علی کے مرید نے جو خواب میں''لاالٰہ الا اللّٰہ اشرف علی رسول اللّٰہ '' پڑھنے کے متعلق خط لکھا تھا وہ خط جب مولوی اشرف علی کے پا س پہنچا تو میں وہیں تھا میری نگاہ تیز تھی میں نے دور سے وہ خط پڑھ لیا اور مولوی اشرف علی سے کہا اس سے کہو کہ توبہ کرے اُنہوںنے اُس کو توبہ کی تلقین نہیں کی اس لیے اُن کے خلاف طوفان بر پا ہوگیا۔ ١ بابا جی کا یہ عامیانہ بلکہ یوں کہئے سوقیانہ انداز علماء محتاطین کواُن کے بارہ میں شک وشبہہ میں ڈالتا تھا،کچھ باتیں باباجی نے ایسی کہیں کہ ان کے بارہ میں کئے جانے والے شکوک و شبہات پختہ ہونے لگے مثلاً ایک دفعہ حضرت مولانا عبدالمنان دہلوی نے ایک مجلس میں باباجی سے کہاکہ باباجی آپ کا کہنا ہے کہ آپ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ ہیں لیکن حضرت حاجی صاحب کے خلفاء کی فہرست میں تو آپ کا نام نہیں ملتا؟ اس پر باباجی نے جو مضحکہ خیز جواب دیا وہ سننے کے قابل ہے ،فرمایا : ''کیا قرآن میں تمام نبیوں کے نام ملتے ہیں ؟'' مطلب یہ تھا کہ قرآن میں سب نبیوں کے نام نہ ہونے سے اگر کوئی فرق نہیں پڑتا تو حاجی صاحب کے خلفاء کی فہرست میں میرانام نہ ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لاحولہ ولا قوة الا باللہ ۔ باباجی رنگین مزاج آدمی تھے مجلس کے سنگ چلتے تھے جیسی مجلس دیکھتے ویسی بات کرتے تھے ،ایک بارایک مجلس میں یوں گویا ہوئے کہ ''جس جہاز میں اسیرانِ مالٹا رہا ہو کر آرہے تھے میں بھی اُس جہاز میں تھا'' بعض علماء نے باباجی کی یہ بَڑ سنی تو حضرت مولانا عزیرگل صاحب رحمہ اللہ کو خط لکھ کر استفسار کیا جواباً آپ نے تحریر فرمایا کہ '' ہم نے نہ کبھی اس کانام سنا تھا ،بجز پاکستان کے ،اور نہ کبھی دیکھا ۔'' باباجی کی اِن باتوں نے اُن کو انتہائی مشکوک ومشتبہ بنادیا تھا اور ایسے محسوس ہونے لگا تھاکہ باباجی شعبدہ باز ہیں اورسادہ لوح عوام کو شعبدہ بازی سے اپنا معتقد بنا رہے ہیں۔ ١ باباجی نے حضرت تھانوی کے بارہ میں اس کہانی کے بیان کرنے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے اس لیے کہ یہ خواب دیکھنے والے حضرت تھانوی کے مرید نہیں ایک معتقدتھے دوسرے حضرت تھانوی نے جو خواب کی تعبیر دی تھی وہ فنِ تعبیر کے مطابق صحیح تھی، باباجی فن تعبیر سے واقف نہیں تھے اس لیے یہ غلط مشورہ دیا۔