ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
|
کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بربادی پر ہی منتج ہوگا البتہ ان طبقات میں اختلافی جہات کے باوجود بہت سی قدریں بہر حال مشترک ہوتی ہیں مثلاً یہ سب زمین کے رہائشی ہیں روشنی ،ہوا،پانی اور غذا کے سب ایک جیسے محتاج ہیں اور اپنے اپنے مقام پر قدرت کی ان نعمتوں سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اسی طرح ہر کوئی کسی نہ کسی مذہب سے بھی وابستہ ہے اور اس سے قلبی لگائو اور تعلق رکھتا ہے۔ غرض مختلف طبقات سے تعلق رکھنے کے باوجود مذہب ان سب کا قدرِ مشترک ہوتا ہے اوراس سے ان کاتعلق اتنا شدیدہوتا ہے کہ وہ اپنی خدما ت کو مذہب پر نچھاور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی خدمات کو مذہب کے تابع بھی رکھنا چاہتا ہے وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں چاہتا کہ مذہب کو خدمات کے تابع کردے یا اُس کو خدمات پر قربان کردے ۔مذہبی وابستگی کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے اور یہی ہونا بھی چاہیے وگرنہ مذہب اپنی شناخت کھو دے گا اور پوری قوم و ملت کو بے نامی کا عفریت نگل جائے گا۔مملکتِ خدادادِپاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت مسلمان ہے اوران کو اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے اسلام سے وابستگی ہی پاکستان کی شناخت ہے اگر یہ وابستگی خدا نخواستہ ختم ہوجائے تو ہندوستان اور پاکستان کا فرق ختم ہوجائے گا قیام ِ پاکستان کامقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ نظریۂ پاکستان کی حیثیت ایک پھٹے ہوئے غبار ہ کی سی رہ جائے گی غرض مذہبی حیات وشناخت ہی پاکستان کے ہر طبقہ کی حیات وشناخت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے برخلاف پاکستان کے ہر طبقہ کو (بشمول علماء کرام) سانئس اور جدید ٹیکنالوجی کا ماہر بنانے کی کوشش کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہرطبقہ کو (بشمول علماء کرام) ماہر ڈاکٹر ،وکیل، سائنسدان، ریاضی دان بنانے کی کوشش کر نا اوریہ ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا نہ ہی اس کے نتائج اچھے نکل سکتے ہیں۔ آپ ہی فرمائیں کہ اگر اس دور کا ہر فرد سائنس و ٹیکنالوجی کا ماہر ہوجائے تواس ملک کا بیڑہ غرق نہ ہوگا تو کیا ہوگا ؟یہ ایسا تباہ کن فارمولا ہے کہ سائنس وٹیکنا لوجی کے سب سے ترقی یافتہ ممالک بھی اس پر عمل تو کجا اس کی خواہش بھی نہیں کرسکتے ۔اقتصادیات و معاشیات کا ادنیٰ طالب علم بھی اس فارمولے کو قبول نہ کرے گا ۔ البتہ عا م لوگوں تک جدید ٹیکنا لوجی ، سائنسی معلومات ،جغرافیہ وغیرہ کی ابتدائی اور ضروری معلومات کی رسائی کی کوشش میں کچھ حرج نہیں ہے بلکہ یہ ایک مفید چیز ہے جبکہ اس سے متعلق مخصوص صلاحیتوں کے حامل افراد کی اس سے مستقل وابستگی ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے ۔حکومت کا اس کی سرپرستی اور اس سے وابستہ افراد کی حوصلہ افزائی کرنا فریضوں میں سے اہم فریضہ ہے ۔اس کی اہمیت کا احساس جتنا طبقہ علماء کو ہے شاید آپ سمیت کسی کونہ ہو۔ اس میں غفلت کو علماء اُمّت بالاتفاق قومی جرم اور گناہ کبیرہ قرار دیتے ہیں ۔جدید عصری علوم کے حصول کی اہمیت سے علماء اُمّت نے کبھی صرفِ نظر نہیں کیا بشرطیکہ اس کے ذریعہ حاصل ہونے والے مقاصد نیک ہوں اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کا ذریعہ ہوں قرآن پاک و حدیث شریف میں جگہ جگہ اس کی ترغیب ملتی ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دین سے تعلق اور وفاداری دیگر ہر قسم کی وفاداریوں پر مقدم ہو وگرنہ اس میدان میں جدوجہد اور مسابقت کی کوئی ضرورت نہیںہے۔