ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
|
مناسب تجاویز کی طرف اُن کے پہلے دیے گئے حوالہ میں اشارہ تھا ان میں سے ایک تجویز یہ بھی تھی جو ابھی ہم نے ذکر کی ۔راقم الحروف نے اجلاس کے دوران بھی اور اجلاس کے بعد بھی آواز اُٹھائی ۔ خود مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے اپنے احسن الفتاوٰی میں ہمارے اختلافی نکتہ پر لکھا : ''مجلس کی تجویز تو یہ ہے کہ یہ فنڈ بینک کی بجائے کسی ثالث کی تحویل میں رہے مگر بینک اپنی ہی تحویل میں رکھنے پر مصررہے(احسن الفتاوٰی حاشیہ ص١٢١ ج٧ ) ہم کہتے ہیں کہ مجلس نے اس وقت بھی بینک والوں کے اصرار کے آگے ان کو زیادہ سمجھانے کی کوشش نہیں کی اور مولوی عمران اشرف نے بھی اپنی کتاب میں اس کو ایک ضابطہ کے طور پر تسلیم کرلیاہے۔ پھرہم کہتے ہیں کہ بینک کا اس میں کچھ فائدہ ہی ہوگا جو وہ اصرار کرکے اس کو منوانے کے درپے ہوا ورنہ عام سمجھ کی بات ہے کہ بے فائدہ کام کو اپنے سر کون لیتاہے ۔اور کچھ بھی نہ ہو تو غریبوں فقیروں پر تقسیم کرکے بینک کو نیک نامی توحاصل ہوگی اور آج کے دور میں جبکہ ہر چیز کو روپے میں تولاجاتا ہے (یعنیEvaluateکیا جاتاہے) تو اگر اس نیک نامی کو بھی روپوں میں تولا جائے تواندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بینک کو کتنا بڑافائدہ حاصل ہوا ہے۔ اور یہ توسب سے کم فائدہ ہے ورنہ بینک اپنے ملازموں کو ضرورت مند Needy persons دکھاکر مکان کے لیے، کار کے لیے اور دیگر ضروریات کے لیے بلاسود قرضہ دے سکتاہے۔اپنے ہی ملازموں کو مجبور اور ضرورتمند دکھاکر ان میں خیرات کے طورپر رقم تقسیم کرسکتاہے۔ غرض ایسے بہت سے کام ہوسکتے ہیں جو وہ اپنی آمدنی میں سے پورے کرنے کے بجائے اب وہ خیراتی فنڈ سے پورے کرسکتا ہے۔ اور ضرورت مند دکھانے کے لیے بینک کو خود اپنی طرف سے کچھ نہ کرناہوگا۔ اس کا صرف یہ کہنا کہ ضرورت مند سٹاف یا اس کے لواحقین فائدہ اُٹھاسکتے ہیں سب کام کرالے گا۔ غرض یہ ظاہری سود نہ ہو معنوی سود توہے اور اسلامی بینکاری میں ایسی چیز کو راہ دینا اس کی اساس کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ شیئرز کی خریداری : مولوی عمران اشرف صاحب مرابحہ کے تحت حصص ( shares )کی خرید وفروخت کوبھی جائز قرار دیتے ہیں لکھتے ہیں : "The shares of a lawful company can be sold or purchased on Murabahah basis because according