ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
|
میڈیا کے سامنے اس بات کا برملا اظہار بھی فرمایا ہے ۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ مدارس تعلیم کے ساتھ ساتھ رہا ئش اور کھانا بھی مفت فراہم کرتے ہیں ۔آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ پاکستان میں گنتی کے صرف چند مدارس ہیں جو انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ آپ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ مدارس کی اکثریت اعتدال پسند ہے اور انتہا پسندی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ،صرف چند مدارس پر انتہا پسندوں کو فروغ دینے کا الزام گزشتہ چند سالوں سے سابقہ حکومتیں بھی لگاتی چلی آئی ہیں ممکن ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہو کیونکہ مدارس مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں مگر علماء کی جانب سے ان کی نشاندہی کے مطالبہ کے باوجود تاحال اِن کی نہ تو نشاندہی کی گئی اور نہ ہی کوئی عملی کارروائی سامنے آئی۔ آپ نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ آپ دینی مدارس پر کریک ڈائون کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔آپ کے خطاب کا مذکورہ بالاحصہ باعثِ مسرت واطمینان ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ '' تا ہم ہم انہیں قومی دھارے میں لائیں گے ۔''یہ بات البتہ ہمارے لیے موجبِ تعجب ہے کیونکہ قومی دھارے میں لانے سے آپ کی مراد ہم تاحال سمجھنے سے قاصر ہیں اگر اس کی اُسی وقت وضاحت کردی جاتی تو بہت بہتر ہوتا۔ اس نوعیت کی گفتگو بعض لوگوں سے ہم پہلے بھی سنتے رہے ہیں اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ وضاحتیں آپ کے گوش گزار کردی جائیں ۔ دُنیا میں آنے والا ہر شخص اپنے اندر قدرتی طورپر کچھ خصوصی صلاحیتیں رکھتا ہے اس کے ذہنی رجحانات انہی صلاحیتوں کی تابعداری کرتے ہوئے اپنے لیے مستقبل میں جہات کی تعیین کرتے ہیں یہ جہات کبھی قریب قریب ہوتی ہیں اورکبھی بالکل مختلف سمتوں کی طرف جارہی ہوتی ہے۔ ان میں کسی کی فکری صلاحیتیں عملی صلاحیتوں پر غالب ہوتی ہیں کسی کی عملی صلاحیت فکر پر غالب ہوتی ہے کوئی زرعی میدان میں خدمات انجام دینا چاہتا ہے توکوئی طبی میدان کو اختیار کرتا ہے کوئی سائنسی کوئی عسکری تو کوئی سیاسی کوئی ملی اور فلاحی تو کوئی تعلیمی، کوئی طبیعیات (Physics)کا ماہر ہوتاہے تو کوئی کیمیائی امور(Chemistry) کا، چونکہ ان کی تعداد کثیر ہوتی ہے اس لیے ہر جہت میں جانے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہو ادارے قائم کیے جاتے ہیں جہاں انہی صلاحیتوں کے ماہرین مستبقل کے ان معماروں کو ہاتھوں ہاتھ لے کر ان کی تربیت کرتے ہیں ،بعدا زاں یہ تربیت یافتہ ہونہار عملی میدان میں آکر ملک وقوم کی خدمت میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔غرض پیدا ہونے سے لے کر عملی خدمات تک بلکہ زندگی کے آخری سانس تک بحیثیت ِاجتماعی قدرت کے بنائے ہوئے دھارے سے ایک لمحہ کے لیے بھی باہر نہیں ہوتے ۔اپنی انہی مخصوص صلاحیتوں کی بناء پر بہت سے طبقے وجود میں آجاتے ہیں اور کوئی طبقہ دوسرے طبقہ کی جگہ نہیں لے سکتا ،ان سے یہ توقع کرنا کہ ڈاکٹر زرعی خدمات بھی انجا م دے اور زرعی ماہر تھوڑی بہت سرجری بھی کر لیا کرے۔ سائنسدان کچھ سیاست کے دائو پیچ بھی جانے اور سیاست دان فزکس اور کیمسٹری کے جو ہر بھی دکھائے کسی طرح بھی مناسب نہ ہوگا اور اس کی کوشش کرنا وقت