ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
|
بہ نسبت غیر مسلم کے ۔یہ الگ بات ہے کہ اُسے فضول خرچی کی طرف لگادیا جائے کسی غلط کام کے لیے ورنہ خرچ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے وہ غیر مسلم سے زیادہ خرچ کرتا ہے ۔زکٰوة اُس پر رکھ دی گئی فطرانہ اُس پر رکھ دیا گیا پھر پڑوس کا غریبوں کا خیال کرنا وغیرہ پھر ایک چیز فیاضی کی بھی چلی آرہی تھی بادشاہ بھی اپنے خزانے خالی کرتے رہتے تھے۔ اور پھر رعایا میں بھی یہی ترتیب تھی کہ ہر بڑا چھوٹے کو دیتا تھا تو یہ ایک نظام ایسا چلا جو غیر محسوس طورپر بس فطرت بن گیا تو اس میں بدحالی کااور ایسے تفاوت کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ یہ بات بھی فطرت کاحصہ بن گئی : ایک اوربات مثال کے طورپر کہتا ہوں کہ اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ کسی غیر مسلم کو نہیں مارناجو ہمارے ہاں رہتا ہو اس کو نہیںمارنا۔ اب آپ دیکھ لیں فرق یہاں کااور ہندوستان کا اور اسپین کا ۔اسپین میں انہوںنے کوئی مسلمان نہیںچھوڑا نسل کشی کی ہے ،ہندو ہندوستان میں نسل کشی کرتے ہیں یہ نہیںکہ قصور وار کو مارا گیا اسلام نے یہ بتلایا کہ قصور وار کو مارو جس کا قصور نہیں ہے اُسے نہیں مارنا ۔اور اگر جنگ ہورہی ہے اور لڑائی ہو رہی ہے تو بھی اُنھیں مارنا ہے جو لڑ سکتے ہیں ۔بوڑھوں کو نہیںمارنا، بچوں کو نہیں مارنا ،عورتوں کو نہیں مارنا ،معذوروں کو نہیں مارنا، بیماروں کو نہیں مارنا ، عبادت گزاروں کو نہیں مارنا، جو لڑ سکتے ہیں جوان ہیں بس اُنھیں مارنا ہے باقی کو نہیں ۔توان کے ہاں یہ نہیں ہے بس نسل کشی ہے۔ ہندوستان میں نسل کشی ہے بچوں کو دودھ پیتے بچوں کو عورتوں سے چھین کر ماراہے اور اتنی دفعہ فساد ہوتے ہیں جب سے تقسیم ہوئی ہے ہند کی ،کہ جس کاشمار نہیں کیا جاسکتا اور یہاں ہندو بس رہے ہیں آرام سے ،سندھ میں کوئی کچھ نہیں کہتا کبھی خبر بھی نہیں سُنی ہوگی فساد کی، یہ بھی نہیں معلوم لوگوں کو کہ یہاں ہندو ہیںاور یہ قانون اسلام نے بتلایا کہ وہ ہمارے ذمہ ہیں جن کی جان کی بھی مال کی بھی حفاظت کرنا ہے اور اِنھیں کچھ نہیں کہنا اور یہ فطرت بن گئی مسلمان کی ۔ تو آقائے نامدار ۖ نے مہر وغیرہ جو رکھے ہیں اور اُصول بنائے ہیںتو وہ نہیں بتائے کہ جن پر خاص لوگ یا بڑے لوگ عمل کرسکیں یا یہ فرمادیا ہو کہ بڑے لوگ جو ہیں وہ ایسے کریں ٹھاٹ باٹ کے ساتھ ان کے لیے اجازت دے دی گئی ہو اور جو چھوٹے لوگ ہیں اُن کو سادگی سے کرنے کو فرمایا ہو،نہیں نہیں ،سب کو فرمایا سادگی سے کرو تب ہی یکسانیت رہ سکتی ہے جیسے نمازمیں کھڑے ہوتے ہیں رئیسِ اعظم کھڑا ہے اور دوسرا چوکیدار کھڑا ہے چپڑاسی برابر کھڑا ہے ۔تو اسی طریقہ پر تما م چیزیں رہنی چاہئیں ۔یہ سعودی عرب یا دوسری ریاستیں جتنی بھی عرب ریاستیں ہیںان سب میں (اس قسم کا) تکبر نہیں ملے گا یعنی بڑے سے بڑے آدمی کے پاس آپ بے تکلف جاسکتے ہیں وہ کھڑا بھی ہوگا وہ اچھی طرح ملے گا تو یہ اسلامی اخلاق ہیں تو بات یہ چل رہی تھی کہ انہوں نے (یعنی اُم سلیم نے )مہر ہی معاف کردیا تھا یہ ابتدائے اسلام کی بات ہے ورنہ