ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
|
قر بانی ( فخرالاماثل حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ) قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ماعمل ابن اٰدم من عمل یوم النحر احبّ الی اللّٰہ من اھراق الدم وانہ لیاتی یوم القیٰمة بقرونھا واشعارھا واظلافھا وان الدم لیقع من اللّٰہ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبو بھا نفساً۔ حضر ۖ تنے ارشاد فرمایا کہ کوئی عمل بقر عید کے دن خدا تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ عزیز نہیں اور وہ قربانی قیامت کے دن اپنے سینگوں اور پائوں اور کھروں سمیت آوے گی ۔اور بے شک خون قربانی کا زمیں پر گرنے سے پہلے ہی جناب الہٰی میں مقبول ہو جاتا ہے پس خوش کرو اس قربانی کے ساتھ اپنا دل ۔ محترم بزرگو! یہ حدیث جو میں نے اس وقت آپ کے سامنے تلاوت کی ہے قربانی کے احکام پر مشتمل ہے۔ جو اس وقت تقریر اور جلسہ کا موضوع ہے۔ تقریر تو مختصر ہوگی اس لیے کہ اول تو مسئلہ جزوی ہے اور جزئیات میں تفصیل نہیں ہوتی ۔کیونکہ بسط وتفصیل تو اُصول میں ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ یہ ایک عام مسئلہ ہے اور اس سے کوئی مسلمان بھی ایسا نہیں جو واقف نہ ہو ۔قربانی کا عمل کوئی حال کا عمل نہیں بلکہ صدیوں سے چلا آتاہے اس لیے بھی اس میںتفصیل کی ضرورت نہیں نہ تو نفس ِمسئلہ میں تفصیل کی گنجائش ہے اور نہ اس کے عام ہونے کی وجہ سے تفصیل کی ضرورت ہے۔ مسئلے کی شرح سے پہلے ایک اُصول سمجھ لیجیے اوریہ اُصول جس طرح تکوینی ہے اسی طرح تشریعی بھی ہے ۔وہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے اس کائنات کا ذرہ ذرہ دو چیزوں سے ملا کر بنایا ہے ،ایک رُوح ، ایک جسم۔ یعنی ہر چیز کی ایک صورت ہے ،ایک اس کی حقیقت، ایک اس کی ہیئت ہے اور ایک اس کی ماہئیت ہے یایوں کہیے کہ ایک اس کا ظاہری حصہ ہے اور ایک باطنی۔ غرض تمام انسان کل حیوانات ، نباتات، جمادات کی جہاں ایک صورت ہے وہاں اس کی ایک حقیقت بھی ہے ۔ایک اس کا بدن بھی ہے اور ایک اس کی رُوح بھی ہے اور ہربدن میں خدا تعالیٰ نے اس کے مناسب روح ڈالی ہے جب حق تعالیٰ کی توجہ کائنات کی طاقتوں اوربدن بنانے کی طرف متوجہ ہوئی تو یہی اصول مدّ ِ نظر تھا۔ سب سے پہلے انسان ہی کو لیجیے کہ اول انسان کا بدن تیار کیا جاتاہے جس کی ابتداء نطفہ یعنی ایک گندے قطرے سے ہوتی ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہے :