ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
|
کہ جس طرح ہر ہر جزوکی رُوح علیحدہ ہے اسی طرح ہر عبادت کا تقوٰی جداگانہ ہے توجو تقوٰی گوشت پوست کے ذریعے پہنچتا ہے اور حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسری عبادت سے کیسے حاصل ہو سکتا ہے ۔مثلاً زید کی رُوح کو گدھے کے قالب میں اگر منتقل کردیا جائے تب بھی وہ زید نہ بنے گا بلکہ گدھا ہی رہے گا۔ اسی طرح صدقہ صدقہ ہی رہے گا ۔قربانی کا قائم مقام اسے کیسے کیا جاسکتا ہے تو دنیا میںتو بغیر صورت کے چارہ نہیں۔ اس لیے قربانی کرنی ہی پڑے گی ہاں آخرت میں پہنچ کر آپ قربانی نہ کریں کیونکہ صورت ضروری نہیں۔لیکن دنیا میں اگر آپ نے اعمال کی صورت کو ترک کردیا تو یقین رکھیے کہ آپ نے اس کی رُوح کو بھی فنا کردیا ۔اسی لیے نبی کریم ۖ کا ارشاد ہے : ما عمل ابن اٰدم من عمل یوم النحراحب الی اللّٰہ من اھراق الدّم۔ یعنی بقر عید کے روز سب سے زیادہ محبوب قربانی ہے۔ تو اس روزسوائے اس عمل کے دوسرا عمل کیسے اُسکا قائم مقام ہوسکتا ہے اور حدیث میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللّٰہ ماھٰذہِ الاضاحی یعنی یہ قربانیاں کیاچیز ہیں؟ آپ ۖ نے ارشاد فرمایا : سنة ابیکم ابراهىم تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے صحابہ نے استفسار کیا۔ فما لنا فیھا یا رسول اللّٰہ یا رسول اللہ! اس سے ہمارا کیا فائدہ ہے آپ ۖنے ارشاد فرمایاکہ بکل شعرةٍ حسنة۔ قربانی کے ہر بال پر نیکی ملے گی قربانی کی حقیقت : اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرتا ۔مگر خدا تعالیٰ کی رحمت دیکھئے کہ ان کو یہ گوارا نہ ہوا ۔اس لیے حکم دیا کہ تم جانور کو ذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے اپنے آپ کو قربان کردیا۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے خواب کے ذریعے بشارت دی کہ آپ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسمٰعیل کی قربانی پیش کریں ۔اب دیکھیے یہ حکم اول تو اولاد کے بارے میں دیاگیا اور اولاد بھی کیسی ۔اور فرزندبھی ناخلف نہیں بلکہ نبی ٔ معصوم ایسے بچہ کو قربان کرنا بڑا مشکل کا م ہے ۔حقیقت میں انسان کو اپنی قربانی پیش کرنا آسان ہے مگر اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کو ذبح کرنا بڑا سخت اور مشکل کام ہے ۔مگر حکمِ خدا وندی تھا اس لیے آپ نے بیٹے کی محبت کو پس ِپشت ڈالا اور حکمِ خداوندی کے آگے