ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
|
ہندوئوں، عیسائیوں اور یہودیوں کا اس میدان میں ترقی کرلینا ہی سب کے لیے کافی ہے کیونکہ ہماری طرح وہ بھی انسان ہیں اورصرف انسان ہونے کی حیثیت سے ایک انسان دوسرے انسان کی ضرورت پوری کر سکتا ہے لہٰذا معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ علماء اور مشائخ کو بلا کر اِس کی اہمیت کا احساس دلانا سورج کوچراغ دکھانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہا ں اگر علماء کرام کو بلا کر اس مسئلہ پر سوچ بچار کی جاتی کہ وہ دینی خدمات جو وہ اپنے اپنے دائرہ میں بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں بالخصوص دینی اداروں کے ذریعہ لوگوں کو اخلاقیات اور دینی معلومات سے آراستہ کررہے ہیں جو کہ ہر فرد کی ضرورت ہے اوراس کی وجہ سے معاشرہ میں صحت مند ماحول پروان چڑھ رہا ہے کیا ایسی خدمات سے اسکول ،کالج اور یونیورسٹیوں کو بھی فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے تاکہ ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے اسکول ،کالج اوریونیورسٹیوں سے نکلنے والے لاکھوںطلباء دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب سے واقفیت رکھ سکیںکیونکہ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں دین کی تعلیم ایک خاص حد تک قوم کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ علماء یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص کے لیے مکمل دینی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے اور یہ کہ ہر شخص ضررو جید عالم دین بنے ۔وہ تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ مذہبی تعلیم ایک خاص مقدارمیں قوم کے ہر ہر فرد کے لیے بلاواسطہ ضروری ہے بیٹا باپ کی جگہ نماز نہیں پڑھ سکتا اس کے بدلہ کا روزہ نہیں رکھ سکتا اسی طرح باپ بیٹے کی جگہ ایسا نہیں کرسکتا ہر فرد کو اپنی نماز روزہ اوردیگر ذمہ داریاں خود ادا کرنی پڑتی ہیں ۔جبکہ عصری علوم کا حصول ہر فرد کے لیے بلاواسطہ ضروری نہیں ہے اس لیے کہ عصری علوم ملک وقوم کے لیے بایں معنی ضروری ہیں کہ ایک خاص طبقہ اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق ان کو حاصل کرکے ملک وقوم کو فائدہ پہنچائے اور باقی افراد بالواسطہ اس سے نفع اُٹھا سکیں مثال کے طورپر اگر ایک خاندان میں ایک فرد ڈاکٹر ہے دوسرا انجنئیرہے اور تیسرا تاجر ہے تو خاندان یا ملکی نظام میں خلل کے بجائے بہتری ہی پیدا ہوگی حالانکہ ان میں سے کوئی ایک فرد بھی دوسرے کے فن اورخدمات سے کچھ آگاہی نہیں رکھتا ،مختصر یہ کہ عصری علوم کی طرف قوم کا ہر فرد براہِ راست شخصی طورپر محتاج نہیں ہے بلکہ بحیثیت مجموعی قوم اس کی محتاج ہے جبکہ مذہبی تعلیم کی طرف قوم شخصی طورپر محتاج ہے قوم کے ہر مرد و عورت کو اس کی حاجت ہوتی ہے لہٰذا آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ علماء کرام سے صرف اُس کام کی توقع رکھیں جس کے وہ ماہر ہیں اور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں دینی خدمات کا میدان سب سے زیادہ اہم بھی ہے اور سب سے زیادہ وسیع بھی ہے اس لیے بجاطورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک وقوم کی سب سے زیادہ خدمت اس وقت علماء کرام کر رہے ہیں اور صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ بیرونی دنیا کے مسلم اور غیر مسلم ممالک میں بھی اپنی فلاحی خدمات بلا کسی اُجرت کے پوری تندہی سے انجام دے رہے ہیں اس لیے یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ طبقہ علماء جن کی خدمات صرف قومی نہیں بلکہ عالمی دھارے کا حصہ ہوں آپ ان کو قومی دھارے میںشامل کرنے کے لیے فکر مند ہوں تو آپ ہی فرمائیے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کیا اس کوحقیقت شناسی کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا