ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
سواگر کوئی یہ کہے کہ جب قربانی سے تقوٰی مقصود ہے تو پھر قربانی کی کیا ضرورت ہے بلکہ تقوٰی اختیار کرلو۔تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پھر سارے اسلام کو چھوڑ کر بس تقوٰی ہی اختیارکر لو کیونکہ روزہ کے متعلق ارشاد ہے : کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ اے ایمان والوں فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پرتاکہ تم پرہیز گار ہوجائو۔ تو روزہ کا حاصل بھی تقوٰی ہی ہے۔ نماز کے متعلق ارشاد ہے : ان الصلٰوة تنھٰی عن الفحشاء والمنکر۔ نماز بے حیائی اوربرے کاموں سے روکتی ہے۔ پھر ارشاد ہے : لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولٰکن البر من اٰمن باللّٰہ والیوم الاٰخر والملئکة والکتٰب والنبیین واٰتی المال علٰی حُبہ ذوی القربٰی والیتٰمی والمسٰکِین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلٰوة واٰتی الزکٰوة والموفون بعھدھم اذا عاھدوا و الصّٰبرین فی الباسآئِ والضرآئِ وحین الباس اُولٰئک الذین صدقُوا و اولٰئک ھم المتقون۔ سارا کمال اسی میں نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلویا مغرب کو لیکن کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتب پر اور پیغمبروں پر اور مال دیتا ہو اللہ کی راہ میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اورمسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے والوں کو جونماز کی پابندی رکھتاہو اور زکٰوة بھی ادا کرتا ہو اور جواشخاص اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں جب عہد کریں اور وہ لوگ مستقل رہنے والے ہوں تنگدستی میں بیماری میںاور قتال میں یہ لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں۔ لیجیے سارے اسلام کا حاصل تقوٰی نکلا اس لیے سب کو چھوڑ کر تقوٰی اختیار کرلیجیے، لیکن یہ بالکل غلط ہے اس لیے