ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
|
سرجھکا دیا۔ اور حضرت اسمٰعیل کو لے کر منٰی کے منحر میں تشریف لے آئے ۔اور فرمایا کہ بیٹا مجھے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو ذبح کردوں تو حضرت اسمٰعیل نے فوراً فرمایا اِفعَلْ مَا تُؤمَر یعنی جو آپ کو حکم ہوا وہ ضرور کیجئے ۔اگر میری جان انہیںچاہیے ،تو ایک جان کیا ہزارجانیں بھی ہوں تو نثار ہیں۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رسیوں سے ان کے ہاتھ پائوں باندھے ،چھری تیز کی ۔اب بیٹا خوش ہے کہ میں خدا کی راہ میں قربان ہو رہا ہوں اِدھر باپ خوش ہے کہ میں اپنی قربانی پیش کررہا ہوں ۔چنانچہ حکمِ خداوندی کی تعمیل میں اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلائی تو چھری کند ہوگئی اور اس وقت حکم ہوا : قد صدقت الرُّؤیا انا کذالک نجزی المحسنین۔ بیشک آپ نے اپنا خواب سچا کردکھایا ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں اوراب ہم اس کے عوض جنت سے ایک مینڈھا بھیجتے ہیں اور تمہارے بیٹے کی جان کے عوض ایک دوسری جان کی قربانی مقرر کرتے ہیں چنانچہ اُسی دن سے گائے ،مینڈھا یا بکری وغیرہ قربانی کے لیے فدیةً مقرر ہوگیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ ذبیحہ کا اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے چنانچہ اس سے انسان میں جان سپاری اور جان نثاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔اور یہی اس کی رُوح ہے تو یہ رُوح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی کیونکہ قربانی کی رُوح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی رُوح مال دینا ہے ۔پھر اس عبادت کا صدقہ سے مختلف ہونا اس طرح بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ کا کوئی دن مقررنہیں مگر اس کے لیے ایک خاص دن مقرر کیا گیا اور اس کا نام '' یوم النحر''یعنی عیدالاضحٰی یعنی قربانی کا دن رکھا گیا ۔جہاں تک قربانی کے مسئلہ کا تعلق ہے تو یہ سلفاً خلفاً ایسی ہی ہوتی چلی آئی، انبیاء کا بھی اور اُمّت کا بھی اس پر اجماع ہے ۔انبیاء بنی اسرائیل میں سب کے یہاں قربانی تھی۔ ائمہ کرام کا بھی اس پر اجماع ہے یہ اور بات ہے کہ امام شافعی ،امام احمد بن حنبل اور امام ابویوسف ان سب کے یہاں قربانی سنت ہے اور امام ابوحنیفہ وغیرہ کے نزدیک واجب ہے۔ اس حکم میں اختلاف اور ائمہ کے وقائق ہیں مگر قربانی میں سب متفق ہیں اور اگر یہ کوئی غیر شرعی عمل ہوتا تو احادیث میں اس کی صفات وغیرہ کیوں بیان کی جاتیں ۔چنانچہ صحابہ کرام فرماتے ہیںکہ ہم کو حضور ۖ نے ہدایت فرمائی ۔ان نشرف العین والاذن یعنی ہم قربانی کی آنکھ اور کان دیکھ بھال کر لیا کریں۔ وان لا نضحی بمقابلةٍ ولا مدابرةٍ ولا شرقآئَ ولا خرقآء ۔ہم نہ قربانی کریں ایسے جانور کی جس کا کان آگے سے کٹا ہوا ہو اور پیچھے سے کٹا ہوا ہو اور نہ چراہوا ہواور نہ جس کے کانوں میں سوراخ ہو۔اور اس کے علاوہ بھی بعض اوصاف مذکور ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے احکام صدقہ سے بالکل جداگانہ ہیں اس لیے اس میں صدقہ کے احکام سے پرہیز کرنا ضروری ہے پھر ساری اُمّت آج تک بلااختلاف اس عمل کو کرتی چلی آئی اور تعامل سب سے بڑی دلیل ہے۔