ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
سیّد محمود قلندر کے معاصر مورخ ملا عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں : شیخ محمود قلندر لکھنؤی ازخلفائے شیخ محمد غوث است صاحب دعوات اسماء بود در ریاضت وفقر وتوکل شانے داشت وصاحب بذل وایثار بود درلکھنؤ آمدہ بود وخیلے از مردم شرف صحبت اویافتہ رتبہ ارشاد یافتند و ہماں جا درگذشت۔ شیخ محمود قلندر لکھنوی شیخ محمد غوث کے خلفاء میں سے ہیں اسماء الہیہ کی دعوتوں کے عامل تھے۔ ریاضت فقرتوکل میںخاص شان رکھتے تھے اور فیاض طبع اور صاحب ایثار تھے۔ لکھنؤ تشریف لے آئے تھے اور بہت سے لوگوں نے ان کے شرفِ صحبت سے مرتبہ ارشاد حاصل کیا آپ نے وہیں (لکھنؤ ہی میں) وفات پائی۔ (تاریخ دیوبند ص٩٦وتذکرہ سادات رضویہ ص٧) از منتخب التواریخ عبدالقادر بدایونی ص٢٨٦۔ شیخ محمد غوث گوالیاری ساداتِ نیشاپور سے تھے شیخ حمید شطاری سے بیعت تھے جن کا سلسلہ صرف ایک واسطہ سے صاحب سلسلۂ شطاریہ شیخ عبداللہ شطارتک پہنچتا ہے شیخ محمد غوث مدت تک قلعہ کا نسجر میں ریاضت ومجاہدہ میں مصروف رہے۔ مراتب عالیہ کے ساتھ دنیا وی عزت و دولت کے بھی مالک تھے ہمایوں بادشاہ کو ان سے بڑی ارادت تھی۔ شیخ دعوت اسماء الہیہ میں زبردست مقام رکھتے تھے۔ اور اد و اعمال میں اور ادِغوثیہ اور جواہر خمسہ آپ کی مشہور کتابیں ہیں ۔ شیخ وجیہہ الدین گجراتی جیسے جامع کمالات عالم کوشیخ محمد غوث سے ارادت تھی۔ شیخ محمود قلندر شیخ محمد غوث کے خلفاء میں تھے شیخ وجیہہ الدین گجراتی کے معاصر اور پیر بھائی تھے دونوں نے شیخ محمد غوث سے اکتساب ِفیض کیا تھا شیخ محمد غوث نے ٩٧٠ھ /١٥٦٢ء میں وفات پائی ۔گوالیار میں ان کا مزار زیارت گاہ خاص و عام ہے ۔ (حاشیہ تاریخ دیوبند ص ٩٦) شطاری سلسلہ کے بانی شیخ عبداللہ شطار تھے ان کے متوسلین میں بعض نہایت بااثر شخصیتں گزری ہیں جنہوں نے اس سلسلہ کو خوب ترقی دی، صوفیاء کے اس مسلک کی ایک خاص بات یہ ہے کہ شطاری مشائخ نے ہندوئوں کے ساتھ نہ صرف نہایت اچھے مراسم قائم کیے بلکہ ان کے مذہبی افکار ونظریات کو ہمدردانہ سمجھنے کی کوشش کی ۔ اس کی ایک اہم مثال شیخ محمد غوث گوالیاری کی تصنیف ''بحرالحیات'' جس میں ہندوئوں کے مذہبی فکر کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس دور میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں ایک دوسرے کو سمجھنے کا شوق بڑھ رہا تھا۔ہندوؤں نے ا ول اول فارسی زبان اسی زمانے میں پڑھنی شروع کی ۔ایک طرف رزق اللہ مشتاقی اورمیاں طٰہٰ وغیرہ ہندوئوں کے علوم کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف ایک ہندوبرہمن کے اسلامی علوم پر عبور کا یہ عالم تھا کہ مسلمانوں کو درس دیتا تھا ۔شیخ رکن الدین گنگوہی ایک ہندو جوگی