ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
|
شیخ محمود قلندر کو عبادت و ریاضت میں غیر معمولی استغراق تھا۔ بحرزخار میں حجة العارفین کے حوالہ سے لکھا ہے : روزے شیخ محمود قلندر باستغراق بود کہ باد تند و باراں بے حساب دررسید وہمہ برشیخ گزشت اورا ازیں ہر دو مقدمہ اصلاخبر نہ شد وقت عشاء کہ اقامت کرد مردم از بادوباراں خبر کردند۔وخوارق عادات ہر ساعت وہر آن مثل خوارہ از فیض مزارش جاری است۔ ایک دن شیخ محمود قلندر استغراق کی کیفیت میں تھے کہ تیز ہوا اور بے حساب بارش آئی اور سب کچھ شیخ پر گزر گیا انہیں ہردو گزری ہوئی باتوں کی بالکل خبر نہیں ہوئی عشاء کے وقت جب نماز کھڑی ہوئی تو لوگوں نے انہیں بادو باراں کی خبردی ۔اور خوارق عادات ہر لمحہ اورہر ساعت ان کے مزار کے فیض سے فوارہ کی طرح جاری ہیں۔ سلطان سکندر لودھی (٨٩٤ھ/١٤٨٨ئ۔٩٢٣ھ/١٥١٧ئ)٨٩٧ھ/١٤٩١ء میں بنگال کے ایک سفر کے دوران شیخ محمود قلندر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور کمال نیاز مندی کے ساتھ پیش آیا ۔بحرزخار میں ہے : بادشاہ مذکورہ (سکندرلودھی) دروقت سفر بنگالہ کہ بہ لکھنؤ رسید صحبت شیخ محمود قلندر دریافت وبکمال نیاز مندی پیش آمد ۔ودیگر تواضع او شیخ مقبول نداشت مگر مسجدے کہ ہنوز بدائرہ شیخ است بناکردۂ اوست۔ بادشاہ مذکور(سکندرلودھی ) بنگال کے سفر کے دنوں جب لکھنؤ پہنچے تو شیخ محمود قلندرکی ملاقات کو پوچھا اور کمالِ نیاز مندی سے پیش آیا۔ ان کی اور کسی پیشکش کو تو انہوںنے قبول نہیں فرمایا لیکن ایک مسجد جو اب بھی دائرہ شیخ (احاطہ) میں ہے ان کی بنائی ہوئی ہے۔ ہمایوں بادشاہ اور شیر شاہ سوری کے مابین جنگ میں شیخ محمود قلندر ہمایوں کے طرف دار تھے ہمایوں کی شکست کے بعد جب شیر شاہ سوری دہلی کے تخت پر بیٹھاتو شیخ محمود قلندرکے درپے آزارہوا، شیخ لکھنو سے جونپور چلے گئے وہاں شیخ عبدالسلام نبیرۂ قطب الاقطاب قطب الدین بینادِلی سے خرقۂ خلافت حاصل کیا اور تیس سال تک ریاضت شاقہ اور مجاہدے میں مشغول رہے، بحرزخار میںہے :