ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
تمہارے یہاں کھا لیں گے شام کو گائوں گئے اور شب کو وہاں مقیم رہے پھر صبح کو عین ایسے وقت کہ خوب زور سے بارش ہورہی تھی اسٹیشن ٹپری پرسوار ہوئے ۔اہل موضع ایسے وقت کے سفر کو گوارا نہ کرتے تھے اور قیام پر مصر تھے لیکن چونکہ ان سوداگر صاحب سے وعدہ تھا اس لیے بھیگتے ہوئے ریل پر پہنچے اور سہارنپور اترے ۔گاڑی میں بیٹھے ہوئے مدرسہ کو آرہے تھے کہ راستہ میں وہ سوداگر صاحب ملے ،مولانا نے گاڑی ٹھہراکر یا آہستہ کراکر (یاد نہیں ) ان کو اپنی واپسی کی اطلاع کی کہ ہم لوگ اپنے وعدہ پر آگئے ہیں تو آپ کیا مزہ کا جواب دیتے ہیں کہ مجھ کو امید واپسی کی نہ تھی اس لیے میں نے کچھ سامان نہیں کیا اب کل صبح دعوت ہے۔ اس وقت مولانا کا حلم او ر میرا غصہ دیکھنے کے قابل تھا مگر بوجہ ادب کے غصہ ظاہر نہ کر سکتا تھا اور مولانا نے منظور فرمالیا اور کھڑے چڑھے سب مہمانوں کے کھانے کا انتظام فرمانا پڑا اگلے دن کی دعوت سے میں نے عذر کر دیا جس کی اصل وجہ تو غصہ تھا مگر ظاہر ی عذر یہ کیا کہ سویرے بھوک نہیں لگتی اوردیر میں ریل نہ ملے گی اورمجھ کو کل وطن جانا ضروری ہے ۔مولانا نے سفارش فرمائی کہ دعوت میں شریک ہوجانا اگر رغبت ہوئی کچھ کھا لینا ورنہ اصرار نہ ہوگا چنانچہ اگلے روز سب حضرات ان کے مکان پر پہنچے اور کھانا لایا گیا، میں بھی بیٹھا رہا مگر کھانے کی خواہش نہیں ہوئی کچھ تو غصہ کے سبب کچھ خلاف معمول ہونے کے سبب ،تھوڑی دیر میں اجازت لے کر مکان سے باہر آیا اور صاحب دعوت کو بھی فرمائش کرکے ہمراہ لایا او ر باہر آکر ان کی اس نامعقول حرکت پر اچھی طرح کان کھولے اور توبہ کرائی ف اس سے مولانا کاحلم ظاہر ہے اور حلم بھی اتنے درجہ کا کہ میں اس میں ساتھ نہیں دے سکا ۔ جام نمبر١٨ : احقر کو بعض امور اجتہادیہ ذوقیہ متعلقہ معاشرت و انتظام میں رائے کا اختلاف تھا اور اس اختلاف کے ہوتے ہوئے میرا یہ خیال تھا کہ مجھ کو مولانا سے صرف اعتقاد عقلی ہو سکتاہے انجذاب طبعی نہ ہوگا مگر کیفیت یہ تھی کہ حاضری تو حاضری تصور کرنے سے اس قدر انجذاب ہوتا تھا کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا اور غالباً اسی کااثر ہوگا کہ خواب میں بھی اگر کبھی زیارت ہوتی تو اسی شان سے ہوتی یہ کھلی دلیل ہے محبوبیت کی کہ محب کو گمان بھی نہیں بلکہ احتمال عدم کا ہے مگر طبیعت ہے کہ کھنچی چلی جاتی ہے اور میں اس کو اللہ تعالی کا فضل او ررحمت اپنے اوپر سمجھتا ہوں کہ اس اختلاف کے ضرر سے مجھ کو محفوظ رکھا۔ جام نمبر ١٩ : احقر نے جو عقد ِثانی کیا اس کے دوران میں یا بعد میں (یادنہیں رہا ) بعض ثقات سے معلوم ہوا کہ مولانا کی نظر میں پہلے ہی سے اس کا استحسان تھا اور رائے بھی ظاہر فرمائی تھی مگر غالباً یہ خیال تھا کہ احقرمنکوحہ اولی کے سبب اس کی ہمت نہ کرے جب اس کا وقوع ہوگیا بہت مسرت ظاہر فرمائی او ر میری اس درخواست کے جواب میں ''کہ اللہ تعالی سے دعا کیجیے کہ اس میں برکت فرمادے ''یہ فرمایا کہ ہم کو تو برکات کی توقع ہے ۔(کما فی اصلاح الانقلاب )