ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
مبلغ حضرات کے لیے تنبیہ : اس میں میں اتنی بات عرض کرنی چاہتا ہوں سمجھانے کے لیے کہ ایک آدمی گناہ کرتا ہے اور اپنے آپ کو عاجز اور بڑا ہی قصور وار سمجھتا رہتا ہے ،رُک نہیں سکتا گناہ سے اس سے گناہ ہو جاتا ہے جب گناہ ہو جاتاہے توپھر پچھتاتا ہے پھر ہو جاتا ہے پھر پچھتاتا ہے تو اس آدمی کی قسم یہی معلوم ہوتی ہے (جو حدیث شریف میں آئی ہے ) اور بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ ایک آدمی نصیحت کرتاہے کسی کو اور اُس کے دماغ میں اور اُس کے دل میں بڑائی آتی ہی چلی جاتی ہے وہ جو بڑائی آتی چلی جاتی ہے تو وہ تو'' کِبر'' ہوگیا وہ تبلیغ نہیں رہی، اس تبلیغ کے اندر تکبر کا پہلو بڑھ گیا تو تبلیغ پر تو اجر ہے اور تکبر پر تو اجر نہیںہے(بلکہ گناہ ہے ) تو اس طرح کی چیز اگر مبلغ کے دماغ میں پیدا ہو رہی ہے کہ میں بہت اچھا ہوں میں بہت برتر اور بالا ہوں توپھر اُسے ڈرناچاہیے اُسے استغفار کرنا چاہیے اُس کیفیت سے جو اس کے دل میں یہ خرابی پیدا ہو گئی ہے اور اُسے خود نظر آنی چاہیے کیونکہ شریعت نے تو بہت بہت چیزیں بتلادی رکھی ہیں، باریک باریک چیزیں بتلارکھی ہیں تو اسے ڈرنا چاہیے کہیں اس بات پرمیری گرفت نہ ہو جائے تو اللہ تعالی کو جو چیز پسند آجائے اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور جو چیز ناپسند ہو اُس کی قیمت کم ہو جاتی ہے ۔ انسان اپنے عمل کا وزن متعین نہیں کر سکتا : انسان خود اپنے عمل کی اور اپنے درجہ کی قیمت ڈال لے اپنی حد مقرر کرلے اپنا وزن مقرر کرلے اس کا اختیار نہیں دیا گیا اور اگر کوئی ایسے کرتا ہے تو جو اُس نے نیکیاں کی ہیں وہ سب بے وزن ہو جائیں گی کیونکہ اُس نے اپنی نیکیوں کی قیمت خود ڈالنی شروع کردی اور خود اُن نیکیوں پر ناز شروع کر دیا یہ غلط ہے یہ نہیں کرسکتا ۔ صحیح مقام ـ نیکیاں بھی، استغفاربھی : بس مقام صحیح یہی ہے کہ نیکیاں کرتا رہے استغفار بھی کرتا رہے اور خدا سے اُس کی رحمت کا طالب ہو اُس کی رضا کوطلب کرتا رہے۔ استغفار کرنے کی بات یہ ہے کہ آپ نماز پڑھتے ہیں جب سلام پھیرتے ہیں تو اس کے بعد جو حدیث شریف میں رسول اللہ ۖ نے مختلف طریقے کرکے دکھا ئے ہیں نماز کے بعد ایک طریقہ یہ ہے کہ تین دفعہ استغفراللّٰہ کہے اورپھر اللّٰھم انت السّلام ومنک السّلام ۔ عبادت کے بعد استغفار اور اس کی حکمت : تو ابھی تو نماز کا سلام پھیرا ہے نماز تو خالص خدا کی عبادت ہے بلا شرکت غیر اور پھر استغفار کرتا ہے قرآن پاک