ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
ف اس سے مولانا کاتعلق نیاز مند وں کی مصالح ظاہر ہ و باطنہ سے ظاہر ہے ،یہ شان فیوض مقام نبوت سے ہے ورنہ مقام ولایت کے فیض کی شان دوسری ہوتی ہے کہ کسی مصلحت میںدخل نہ دیا جائے ۔اور اول کا اکمل ہونامعروف ہے ۔ جام نمبر ٢٠ : اور اس جام میں دوسرے نوع جام کی طرف بھی اشارہ ہے جو اس شعر میں مذکورہے۔ ہر آنکہ زادبناچار بایدش نوشید زجام دہرمۓ کل من علیھا فان یعنی اس میں وفات کے بعد برزخ کاایک واقعہ مذکورہے گو ظنی ہے لیکن مبشرا ت میں سے ہونے کے سبب قابل ذکر ہے اور یہ ایک ثقہ کا خواب ہے جن کا نام محمد عمر فاروق مقیم غازی پورزیر قلعہ کہنہ ہے۔ ان کا خط ١٣رجب ١٣٤٦ھ کو میرے پاس آیا جو بعینہ منقول ہے اور اسی پر اس عجالہ کو ختم کرتاہوں ،وہوہذا حال میں حضر ت مولانا خلیل احمد صاحب قدس سرہ کی بھی زیارت سے شرف یاب ہوا ہوں۔ مولانا مرحو م کو خواب میں بہت ہی خوش دیکھا ۔احقر نے عرض کیا کہ آپ توزندہ ہیں لوگوں نے ناحق وفات کی خبر اڑادی اس پر مولانا نے ہنس کر فرمایا میں توزندہ ہوں پھر یہ دیکھا کہ مولانا کسی طالب علم کو مالا بدمنہ پڑھانا چاہتے ہیں انتہت الرئویا۔ف تعبیر ظاہر ہے کہ میں توزندہ ہوں مصداق ہے اس قول کا ہرگز نہ میر د آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است برجریدہ ٔ عالم دوام ما اور مالا بدمنہ پڑھاناارشا رہ ہے مولانا کے جامع بین الفقہ الظاہر و الفقہ الباطن کی طرف کیونکہ مالابدمنہ کے مصنف دونوں کے جامع ہیں ۔اس کے ساتھ ہی اشارہ ہے شان غلبہ ٔ فقہ ظاہر کی طرف چنانچہ مالا بدمنہ میں غالب حصہ یہی ہے واللہ اعلم وہذا آخرمااردت ایرادہ فی ہذا الحین نفع اللہ بہ الطالبین ورزقنا حبہ وحب نبیہ و حب الصالحین فقط اوائل ذیقعدہ ١٣٤٦ھ مقام تھانہ بھون ۔