ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
ع چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی غیر مقلدین کے اس جارحانہ طرز عمل سے برصغیر پاک وہند کے عوام ، بالخصوص اہل علم حضرات متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور اُن میں تشویش کی لہر دوڑ نے لگی چنانچہ ہندوستان میںفدائے ملت امیر الہند جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید اسعد مدنی دامت برکاتہم نے بطور خاص اس کا نوٹس لیا اور پورے ہندوستان کے اہل علم کو اس فتنہ کی سرکوبی کی طرف متوجہ فرمایا ۔گزشتہ سال آپ نے دہلی میں دو روزہ تحفظِ سنت کانفرنس منعقد کی جس میں سارے ہندوستان کے اکابر علماء کو مدعو کیا انہوں نے جہاں عوام کو اس فتنہ سے آگاہ کیا وہیں سعودی حکومت کو بھی متنبہ کیا کہ ایسی صورت میں اس کی کیا ذمہ داری بنتی ہے ؟اس موقع جمعیت علماء ہند کی طرف سے تقریبًا ستائیس رسالے بھی مختلف موضوعات پر فتنۂ غیر مقلدیت کے رد میں شائع کئے گئے ، پیش نظر کتاب ''مجموعہ مقالات ''میں جو چار جلدوں پر مشتمل ہے انہی رسائل کو عکس لے کر شائع کیا گیا ہے نیز مرتب نے پاکستان میں رد غیر مقلدیت سے متعلق بہت سے مضامین کو بھی ان مقالات کے ساتھ اکٹھا کر دیا ہے۔ اس طرح ان مقالات میں تقریبًا تمام متنازع مسائل سے متعلق تحریرات جمع ہو گئی ہیں، یہ مقالات غیر مقلدیت زدہ حضرات کے لیے عموماً اور اس موضوع پر کام کرنے والے حضرات کے لیے خصوصاً نہایت مفید و کار آمد ہیں ۔ سمجھ میں نہ آنے والی منطق ٭ رہزن جب تک علیحدہ علیحدہ ہوں وہ رہزن ہیں ۔لیکن اگر رہزن یونین بنا لیں تو وہ پاسبان بن جاتے ہیں۔چور اگر اپنا کوئی اتحاد قائم کرلیں ،وفاق قائم کرلیں تو وہ چوکیدار کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں ،لیکن اگر الگ الگ ہیں تو چور ہیں رہزن ہیں ،یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی کہ ایک رہزن رہزن ہے ،دو رہزن رہزن ہیں لیکن سو رہزن آپس میں مل کر پاسبان کیسے بن جاتے ہیں۔ یہی رہزن جب ایک فردواحد میں ہے تو مضر ہے لیکن ترقی کرکے سو کے درجے تک پہنچی تو اب کیسے مضر نہیں رہے گی۔ اگر وہ ایک نمبر کی مضر تھی تو اب سو نمبر کی مضر ہونی چاہیے ۔دنیا کی سیاسی،اقتصادی ،اجتماعی تنظیمات سب کا حال یہی ہے ۔یورپ ،امریکہ اور رُوس کی حکومتوں کو دیکھئے اسی کے ساتھ مشرقی حکومتوں کو بھی دیکھئے کہ وہ فاسق الخیا ل ،فاسد المقصد، جن کے مقاصد تخریبی ،جن کی زندگی فاسد جن کے اخلاق خراب جن کے افکار و خیالات فاسد ان سبھوں نے ایک اجتماعی نظام بنا لیا ہے اور وہ اجتماعی نظام قوموں کی قسمتوں کا فیصلہ کر رہا ہے ۔ حضرت مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ (از دعوت فکر و عمل صفحہ ٧٠)