ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
خوانِ خلیل بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم بعد الحمد والصلٰوةحضرت مولانا عارف جامی نے مشتر یان ِیوسف علیہ السلام کے قصہ میں نقل فرمایا ہے چو یوسف شد بخوبی گرم بازار شد ندش مصر یاں یکسر خریدار بہر چیز یکہ ہر کس دسترس داشت دراں بازار بیع اوہو س داشت شنیدم کز غمش زالے برآ شفت تنیدہ ریسمانے چند و می گفت ہمیں بس گرچہ من کاسد قماشم کہ در سلک خریدار انش باشم اسی مخلص بڑھیا کی تقلید ان سطور کی تحریر میں احقر نے اختیار کی ہے کہ ایک حبر ہمام وبحر قمقام یعنی الشیخ مولاناخلیل احمدا مکسوحلة خلة الرحمن وسمی ابراہیم یوسف وقتہ من وجھہ کا لقلب فی اللمعان المتوفی فی ربیع الثانی ١٣٤٦ھ رحمہ اللّٰہ تعالی رحمة وّاسعة وافاض من برکاتہ علی اہل الدیار القریبة والشاسعة کے دریائے کمالات میں سے چند رشحا ت و قطرات ناظرین مشتاقین کے قلوب و ابصار پربصورت رسالہ پاشاں کرتا ہوں جو بمقابلہ اس دریا کے امواج کے (جن کو مولانا قدس سرہ کے حذاق عارفین معرفین عنقریب سطح اذہان عشاق معتقدین صادقین پر متلاطم ومتراکم فرمائیں گے) وہی نسبت رکھتے ہیں جو اس بُڑھیا کا ریسماں خزائن عزیز سے نسبت رکھتا تھا جس کے پیش کرنے میں میری بھی وہی نیت ہے جو اُس بڑھیا کی تھی یعنی ہمیں بس گرچہ من کاسد قماشم کہ درسلک خریدار انش باشم جیسا کہ اس کے قبل اسی نمونہ کی دو مختصر یاد داشتیں''یاد ِیاراں''و'' ذکرِمحمود'' پیش کرچکا ہوں اور یہ ماحضر نافع ہونے کی صورت میں چونکہ مولانا ہی کا فیض ہوگا۔اس لیے ممدوح کو حضرت خلیل اللہ علیہ الصلٰوة والسلام سے اور ان فیوض کی مبدأیت کو آپ کی شان میزبانی سے تشبیہ دے کر ان فیوض کے مجموعہ کو خوان کے اور اس کے آحاد کوجامات اطعمہ واشربہ کے مشابہ قرار دے کر اس مجموعہ ٔحالات کو خوان خلیل سے اور ہر جز کو جام سے ملقب کرتا ہوں او ر ان ہی مناسبات سے اس رسالہ کی لوح پراس شعر کے لکھنے کا مشورہ دیتاہوں گرشوی درد ین مہمان خلیل جا مہانوشی ازیں خوانِ خلیل