ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
راوی جس قدر زیادہ ثقہ ہوتا ہے اسی قدر روایت کازیادہ اثر ہوتا ہے ۔واللہ اعلم بضمائر عبادہ ۔ جام نمبر ٩ : ایک شخص نے اپنی ایک حالت کی جس کا کچھ حصہ نوم تھا اور کچھ تقیطہ مشابہ بنوم تھا اور اس حالت میں غیر اختیاری طور پر ایک غیر مشروع کلمہ کا زبان سے نکلنے کی اطلاع دے کر تحقیق چاہی تھی ۔میںنے قواعد شریعت و طریقت سے اس کاجواب لکھ دیا جس کاحاصل سائل کا معذور ہونا تھا چونکہ طریقت اس وقت کا لمہجور ہو گئی ہے اس لیے اس جواب کی حقیقت نہ سمجھنے سے اکثر عوام اور بعض اہل علم میں بھی اس کے متعلق ایک شورش برپا ہوگئی کہ اس کو معذور کیوںقرار دیا جس کی تحقیق احقر نے حکایات الشکایات کی حکایتِ سوم میں لکھی ہے ۔مولانا نے شفقت سے زبانی مشورہ دیا کہ اس سائل کے قابل تو بیخ ہونے کے متعلق کوئی تحریر شائع ہو جائے تو شورش کم ہو جائے اور عوام کا دین بھی محفوظ رہے اھ بمعناہ میں نے اس باب میں اپنا شرح صدر نہ ہونا عذر میں پیش کیا اور عرض کیا کہ آپ اور دوسرے علماء کچھ تحریرفرما دیں تو میں شائع کردوں ۔اس کو منظور فرمایاچنانچہ میں نے سوال مرتب کرکے مختلف علماء سے رجوع کیا جس میں مولانابھی تھے، سب نے اپنی اپنی رائے کے موافق جواب لکھا جو الامداد شوال ١٣٣٦ھ میں شائع ہوئے ہیں ۔ ف اس میں بھی وہی خیر خواہی اور اس کے ساتھ دین کی حفاظت کا اہتمام ظاہر ہے۔ جام نمبر ١٠ : اس قصۂ مذکورہ کا اثر عوام میں کسی قدر باقی تھا کہ اس اثنا ء میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے جلسہ سالانہ کا موقع آگیا حسبِ دستور میں بھی حاضر ہوا چونکہ اس جلسہ میں احقر کا معمول وعظ بیان کرنے کا تھا۔ مولانا نے بمصلحتِ برأ ت عن التہمة مجھ سے فرمایا کہ اس وقت بڑا مجمع موجود ہے اگر اس واقعہ خواب کے متعلق کچھ بیان کر دیا جائے تو اچھا ہے تاکہ عوام کے شکوک رفع ہو جاویں ۔احقر نے عرض کیا کہ مجھ کو تو اس کے متعلق کچھ بیان کرنے سے شرم و عار آتی ہے کیونکہ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ میں اپنا تبریہ کروں اور انسان اپنا تبریہ ایسی بات سے کیا کرتاہے جس کا کسی درجہ میں احتمال ہو پس تبریہ کرنااس کے ا حتمال کو تسلیم کر لینا ہے ۔مولانا نے فرمایا کہ اچھا اگر تم اپنی زبان سے تبریہ نہیں کرتے تو ہم میں سے کوئی شخص اس کے متعلق بیان کردے ۔احقر نے عرض کیا کہ اگر ایسا ہو ا تو میں جلسہ سے اُ ٹھ جائوں گا ۔مولانا نے فرمایا نہیں نہیں تم کو گوارا نہیں تو پھر کوئی ضرورت نہیں۔یہ سب مکالمہ وعظ مظاہر الاقوال کی تمہید میں مذکورہے اس مشورہ میں بھی علاوہ خیر خواہی کے اتبا ع سنت یعنی تہمت کا رفع کرتاہے جیسا حضرت صفیہ کے واقعہ اعتکاف میں حضور ۖ نے فرمایا مگر یہ مشورہ چونکہ محل اجتہاد تھا جس کی وجہ احقرکے جواب میں مذکور ہوچکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ سنت اس امر میں ہے جو محلِ اشتباہ ہو جب یہ نہیں تو احتمالات غیرناشی کا کہاں تک انسداد کیا جاوے یوں تو جواب دینے کے بعد بھی اس