ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
جام نمبر ٥ : ایک بار احقر کے مواعظ کے متعلق یہ ارشاد فرمایا کہ اس کے بیان میں کہیں انگلی رکھنے تک کی گنجائش نہیں ۔ ف اس میں حسن ظن وسنت مدح لتا لیف القلب و تحضیض علی الخیر کا ثبوت ظاہرہے ۔ جام نمبر ٦ : گاہ گاہ غریب خانہ کو بھی اپنے اقدام سے مشرف فرماتے تھے ۔مجھ کو یاد ہے کہ غالباًجب اول بار تشریف آوری ہوئی تو احقر نے جوش محبت میں کھانے میں کسی قدر تکلف بھی کیا اور اہل قصبہ میں سے بھی بعض عمائد کو مدعو کر دیا کہ عرفاً یہ بھی معزز ضیف کا اکرام ہے ( ان بعض عمائد نے میر ی اس خدمت کا یہ حق ادا کیا کہ بعد جلسہ دعوت کے مجھ کو بدنام کیا کہ طالب علم ہوکر اتنا تکلف کیا پانچ چھ کھانے والوں کے سامنے بہتر یا باسٹھ برتن تھے، میں عدد بھول گیا کہ کونسا فرمایا تھا اس روایت کے قبل مجھ کو تکلف کے مقدار کی طرف التفات بھی نہ ہواتھا) مولانا نے مزاحاًفرمایا کہ یہ تکلف کیوں کیا گیا۔ میں نے عرض کیا کہ اس کا سبب خود حضرت ہی ہیں ،اگربکثرت کرم فرماتے تو ہرگز تکلف نہ کرتا یہ تقلیل سبب ہے اس تکثیر کا اس کے بعد آمد کی تکثیر ہو گئی اور تکلف کی تقلیل۔ ف اس سے بے تکلفی و سادگی ورعایت میز بان ظاہر ہے اوران سب کا اخلاق ِفاضلہ سے ہونا ظاہر ہے ۔ جام نمبر ٧ : باوجودیکہ اس احقرکے ساتھ مساویانہ بلکہ اس سے بھی زیادہ تربرتاؤ فرماتے تھے جیساکہ جام نمبر ١ میں مذکورہوا لیکن اظہار حق کا اس قدر غلبہ تھا کہ اگر میں نے استفادةً کوئی بات پوچھی تو اس کے جواب میں کبھی تکلف نہیں فرمایا اور کبھی از خود بھی متنبہ فرمایا چنانچہ اس وقت تین مسئلے اس قسم کے میرے ذہن میںحاضر ہیں ۔ مسئلہ نمبر ١ : میرا ایک دوست سے اس مسئلہ میں اختلاف ہوا کہ پشت کی طرف سے فوٹو لینے میں جس میں چہرہ نہ آوے گنجائش ہے یا نہیں ،جانبین سے مکاتبت کا سلسلہ چلتا رہا آ خر میں احقر نے اس دوست کو مولانا کے فیصلہ پر راضی کرکے تحقیق مسئلہ کی درخواست کی ،مولانا نے خوشی سے قبول فرماکر مسئلہ کافیصلہ کردیا ۔چنانچہ ہم دونوں نے قبول کرلیا یہ محاکمہ تتمہ جلد رابع فتاوی امدادیہ کے آخر میں شائع ہو چکا ہے۔ اس محاکمہ کی تمہید میں مولانا کی عبارت قابل دید ہے وہی ہذہ ''بندہ ناچیز باعتبار اپنے علم و فہم کے اس قابل نہیں کہ علماء اعلام کے اختلاف کافیصلہ کرسکے مگر ہاں امتثالاً للا مرا لشریف اس مسئلہ میں جو کچھ خیال میں آیا عرض کرتا ہے الخ۔ ف تواضع اور اظہار حق میں اس طرح جمع کرناجس درجہ کا کمال ہے ظاہر ہے مسئلہ نمبر ٢ : مشتمل برسوالات متعددہ ،جزاول بعض روایات میں ابن عباس سے وارد ہے اخطا الکاتب فی تستانسوا وانما ہو تستا ذنوا۔ میں نے مولانا سے بذریعہ خط پوچھا جس کا جواب نہایت قریب و عجیب ارشاد