ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
اب وہ جامات پیش کرتاہوں واللّٰہ یطعم ویسقی وہو یشبع ویر وی ۔ کتبہ اشرف علی عفی عنہ اوائل رجب ١٣٤٦ھ جام نمبر ١ : یوں تو مولانا سے اس احقر کومدت دراز سے نیاز حاصل تھا لیکن زیادہ خصوصیت اس زمانہ سے ہوئی جب سے میں کانپور کا تعلق چھوڑکر وطن میں مقیم ہوا اور سہارنپور کی آمد و رفت میں کثرت ہوئی جس میں مظاہر علوم کے سالانہ جلسہ کے موقع پر تو گویا بالالتزام حاضری ہوتی تھی اور متفرق طورپر بھی بکثرت آنا جانا رہتا تھا اور ہر حاضری میں طویل طویل اوقات مولانا کی صحبت میں مستفید رہتا تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ باوجود یکہ میں ہر طرح چھوٹاتھا عمر میں بھی طبقہ میں بھی اور علم وعمل میں تو مجھ کو کوئی نسبت ہی نہ تھی ،اس میں تو چھوٹے بڑے ہونے کی نسبت کا ذکر بھی ایک درجہ میں ادعا ء ہے علم وعمل کا مگر مولانا کا برتائو مساویانہ تو یقینی ہی تھا ۔بعض اوقات ایسا برتائو فرماتے تھے کہ جیسے چھوٹے کرتے ہیں بڑوں کے ساتھ، ا س سے زیادہ کیا درجہ ہوگا تواضع کا یہ بناء تو یقینی تھی اور احتمالی یہ بھی ہے کہ شاید اس واقعہ کو بھی دخل ہوکہ مولانا بواسطہ حضرت گنگوہی قدس سرہ کے اعلی حضرت حاجی صاحب قدس سرہ سے منتسب تھے اور یہ احقر بلاواسطہ ۔ اگر یہ بھی تھا تو اس حفظ مراتب کا جوکہ حکمت عملیہ کا اعلی شعبہ ہے کامل ثبوت ہوتاہے ۔ف تواضع و حفظ حدود کا کمالات مقصودہ میں سے ہوناظاہر ہے ۔ جام نمبر ٢ : مولانا نے اپنے ایک معتقد خاص سے فرمایا تھاکہ مجھ کو اشرف سے اس وقت سے محبت ہے جس وقت ا س کو خبر بھی نہ تھی ۔ ف اس واقعہ میں ایک خاص سنت کا اتباع ہے کہ حضور اقدس ۖ کا ارشاد ہے کہ اگر کسی کو کسی سے محبت ہے تو اس کو خبرکر دے اورحکمت اس کی ظاہر ہے کہ اس میں تطییب ہے قلب مسلم کی نیز جلب ہے اس کی محبت کا اور باہمی تحابب وتوادد کے ثمرات ظاہر ہیں۔ جام نمبر ٣ : باوجود میرے کم مرتبہ ہونے کے گاہ گاہ مجھ کو ہدایا سے بھی مشرف فرمایا ہے۔ ف اس میں علاوہ سنت تہادی کے کہ سبب ہے تحابب مطلوب کا تواضع بدرجۂ غایت بھی ہے کیونکہ تہادی بشان ِخاص تواضع ہی سے ناشی ہے ۔ جام نمبر ٤ : احقر مولانا کے سامنے وعظ کہتا ہوا بے حد شرماتا تھا گو امتثال امر کے سبب عذر نہ کرسکتا تھا لیکن مولانا نہایت شوق و رغبت سے استماع فرماتے تھے ۔ف اس میں علاوہ تواضع کے اہتمام علم کے فضائل کی بھی تحصیل ہے جس پرسلف صالح عامل تھے ۔