آپ کی امانت آپ کی سیوا میں 11 سنابل بک ڈپو،حیدرآباد
٢: دوسری بات یہ ہے کہ اس نظریہ کو مان لینے کے بعد یہ ماننا پڑے گا کہ اس زمین پر جانداروں کی تعداد میں لگاتار کمی ہوتی رہی ہے، جو روحیں آواگمن سے نجات حاصل کر لیں گی، ان کی تعداد کم ہوتی رہنی چاہیے؛ جب کہ یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ اس اتنی بڑی زمین پر انسانوں،جانوروں اور نباتات ہر طرح کے جانداروں کی تعداد میں لگاتار اضافہ ہوتا رہا ہے.
٣: تیسری بات یہ ہے کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کی تعداد میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے،مرنے والے انسان کی مناسبت میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے، کبھی کبھی کروڑوں مچھر پیدا ہو جاتے ہیں، جب کہ مرنے والے اس سے بہت کم ہوتے ہیں، کہیں کہیں کچھ بچوں کے بارے میں یہ مشہور ہوجاتا ہے کہ وہ اس جگہ کو پہچان رہا ہے،جہاں وہ رہتا تھا،اپنا پرانا نام بتادیتا ہے اور یہ بھی کہ وہ دوبارہ جنم لے رہا ہے،یہ سب شیطان اور بھوت پریت ہوتے ہیں، جو بچوں کے سر چڑھ کر بولتے ہیں اور انسانوں کے دین ایمان کو خراب کرتے ہیں.
سچی بات یہ ہے کہ یہ سچائی مرنے کے بعد ہر انسان کے سامنے آجاتی ہے کہ انسان مرنے کے بعد اپنے مالک کے پاس جاتا ہے اور اس جہان میں اس نے جیسے کام کیے ہیں،اس کے حساب سے سزا یا اچھا بدلہ پائے گا.
اعمال کا پھل ملے گا
اگر وہ اچھےکام کرے گا،بھلائی اور نیکی کے راستے پر چلے گا،تو وہ جنت میں جائے گا، جنت جہاں ہر آرام کی چیز ہے اور ایسی ایسی عیش و آرام کی چیزیں ہیں، جن کو اس دنیا میں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے،نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں اس کا خیال گزرا اور سب سے بڑی جنت کی نعمت یہ ہوگی کہ جنتی لوگ وہاں اپنے مالک کا اپنی آنکھوں سے دیدار کرسکیں گے،جس کے برابر آنند اور مسرت کی کوئی چیز نہیں ہوگی.