ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2017 |
اكستان |
|
وہ نافع اور غیر نافع چیز میں فرق نہیں کرسکتے تھے اُن پر خدا کا غضب نازل ہوا تھا اور اُن پر جابر و ظالم حاکم مسلط کردیے گئے تھے وہ محکوم و مغضوب چلے آرہے تھے۔(اِس قسم کی) محکوم قوم میں اکثر گندی عادتیں اور مکروہ خصلتیں پیدا ہو جاتی ہیں، محکوم و غلام آدمی کو اپنا ضمیر ظاہر کرنے کا موقع نہیں ملتا وہ خوشامد اور چاپلوسی کرنے پر مجبور ہوتاہے اس لیے محکوم اقوام میں اخلاقی کمزو ریاں بکثرت پائی جاتی ہیں، سو یہودیوں میں اپنی کرتوتوں (توہین ِ انبیاء وغیرہ) کے باعث تقریبًا ہر طرح کی خرابیاں موجود تھیں، یہ (مدینہ کے) یہودی بظاہر تو مسلمانوں کے ہمدرد بنے ہوئے تھے مگر در پردہ اُن کو مسلمانوں سے حسد تھا یہ مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی سے غمگین ہوتے اور مسلمانوں پر کوئی تکلیف آتی تو یہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوتے۔ بد تہذیب اور گستاخ : جب آقائے نامدار ۖ مدینہ منورہ تشریف لائے تویہ لوگ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے، یہ جب آپ کی خدمت میں آتے تو ''السلام علیکم ''کے بجائے '' السام علیکم '' کہتے، گویا ایک طرح کا دھوکہ دینا چاہتے تھے عام لوگوں کو پتہ بھی نہ چلتا کہ '' السلام ''کہہ رہے ہیں یا ''السام'' ''السلام علیکم'' کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو اور'' السام علیکم ''کے معنی ہیں تمہیں موت آئے، معنی میں بالکل تضاد پایا جاتا ہے مگریہ ظالم خداکے رسول کے پاس آکر اِس طرح کے نازیبا الفاظ زبان پر لاتے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ اُم المو منین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دیکھ رہی تھیں کہ کچھ یہودی ملنے کے لیے داخل ہوئے، حسب ِ عادت اُنہوں نے وہی'' سام ''کالفظ کہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سنا تو غصہ میں آگئیں اور جواب میں فرمایا بَل عَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ یعنی بلکہ تم پر موت اور لعنت ہو۔ آنحضرت ۖ نے حضرت عائشہ کایہ جواب سن کر فرمایا یَا عَائِشَةُ اِنَّ اللَّہَ رَفِیْق یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِکُلِّہ اے عائشہ ! حق تعالیٰ رفیق ہیں وہ خود بھی تمام معاملات میں نرمی کرتے ہیں اور ہر معاملہ میں نرمی ہی کو پسند فرماتے ہیں (مطلب یہ ہے کہ اِن یہودیوں کو نرمی سے جواب دینا چاہیے تھا) اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ اَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوْا آپ نے وہ نہیں سنا