قرب الہی کا اعلی مقام |
ہم نوٹ : |
|
ہوں۔ اس لیے آگے اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ لگادیا تاکہ بندےمیں شانِ فنائیت پیداہوجائے،شانِ استقلال نہ رہےاوربندہ یہ کہےکہ اےاللہ!میری عبادت آپ کی استعانت کی محتاج ہے،اس کے اندر لاحول ولا قوۃ الا باللہ چھپا ہوا ہے کہ ہم آپ کی توفیق کے بغیر آپ کی عبادت کی طاقت نہیں رکھتے۔ علامہ آلوسی نے ایک جواب تو یہ دیا اور دوسرا جواب یہ دیا کہ عبادت اللہ کو بندوں سےمطلوب ہے،اللہ بندوں سے کیا چاہتےہیں؟ عبادت چاہتے ہیں۔ تو عبادت مطلوبِ خدا ہے اوراستعانت کون چاہتا ہے؟بندےچاہتے ہیں۔یہ مطلوبِ خلق ہے۔چوں کہ عبادت مطلوبِ خالق ہے تو مطلوبِ خالق کو مقدم ہونا چاہیے مطلوبِ خلق پر۔ اس لیے نَعۡبُدُ مقدم ہے نَسۡتَعِیۡنُ پر۔ 20؎اسمائے حسنیٰ رحمٰن اور رحیم کی شرح اب ایک چیز اور سن لیجیے، سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کے دو نام ہیں رحمٰن اور رحیم۔ علامہ آلوسی نے ان دونوں میں فرق بیان فرمایا ہے کہ رحمٰن کی شان میں جو رحمت ہے یہ اللہ کے لیے خاص ہے، کسی انسان کا نام رحمٰن رکھنا جائز نہیں ہے،لیکن رحیم خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نازل ہوا ہے۔ قرآنِ پاک کی آیت ہے بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۔ تو رحیم کا اطلاق مخلوق پر بھی ہوسکتا ہے لیکن رحمٰن کا اطلاق صرف خدا پر ہوتا ہے۔ قُلِ ادْعُوا اللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰـنَ 21؎ اس کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمٰن کے نام سے پکارو ۔ تو معلوم ہوا کہ رحمٰن کا نام اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ دوسری بات علامہ آلوسی یہ فرماتے ہیں کہ رحمٰن کی صفت میں کبھی کبھی تمزز ہوجاتا ہے تکلیف کا جیسے کوئی شخص کڑوی دوا پی رہا ہے اور منہ بنارہا ہے مگر دوا بھی اللہ کی رحمت ہے یا نہیں؟ کیوں کہ اللہ کے حکم سے اس دوا سے اس کو شفا ہوجائے گی۔اسی لیے فرمایا _____________________________________________ 20؎روح المعانی:88/1 الفاتحۃ (4) ، داراحیاء التراث ، بیروت 21؎روح المعانی:64/1،بنی اسرآء یل (110)،داراحیاءالتراث ،بیروت