قرب الہی کا اعلی مقام |
ہم نوٹ : |
|
حضرت عمرو ابنِ عبسہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم)! اَیُّ الْہِجْرَۃِ اَفْضَلُ کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ ہجرت افضل ہے جس میں بندہ ان باتوں کو چھوڑ دے مَا کَرِہَ اللہُ 15؎ جو اللہ کو ناپسند ہوں۔جو اللہ کی ناپسندیدہ باتوں کو چھوڑ دے وہ اصلی مہاجر ہے، ایسے ہی شخص کو علم کی برکت، علم کی مٹھاس، علم کا نور عطا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم کے مظاہر اللہ تعالیٰ کی صفتِ علم وہ صفت ہے جس سے جبرئیل علیہ السلام کی تربیت کی گئی ہے اور جس سے جملہ انبیائے کرام کی تربیت کی جاتی ہے۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے حکایات اولیاء اس میں ہے کہ حضرت حاجی امداداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلی دفعہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات کی، اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ 16؎ کے نزول کے وقت غارِ حرا میں جب آپ نے پہلی بار حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا تو آپ پر خوف طاری ہوا،آپ گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ سے فرمایا زَمِّلُوْنِیْ ، زَمِّلُوْنِیْ ،مجھے چادر اڑھاؤ۔17؎ تو یہ خوف حضرت جبرئیل کا نہیں تھا بلکہ خود آپ پر اپنی کمالِ عظمت منکشف ہوگئی تھی، اپنے حسن و جمال کا معراج نظر آیا تھا۔ بعض لوگ اتنے حسین ہوتے ہیں کہ آئینہ دیکھ کر اپنے ہی حسن سے بےہوش ہوجاتے ہیں۔ تو حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مکہ کے جاہلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی عظمت منکشف نہیں ہوئی تھی، جب اپنا ہم جنس پایا،جب حضرت جبرئیل سے ملاقات ہوئی تب آپ پر اپنا مقامِ عظمت اور مقامِ نبوت منکشف ہوا۔ چوں کہ حضرت جبرئیل کی تربیت صفتِ علم سے ہوئی ہے اور انبیاء کی تربیت بھی صفتِ علم سے ہوتی ہے تو صفتِ علم کی قدر مشترکہ ہونے کے باعث جب آپ کو اپنا ہم جنس نظر آیا اس وقت آپ پر اپنے مقام کا _____________________________________________ 15؎سنن النسائی،ترک رفع الیدین فی القنوت فی الوتر 16؎العلق:1 17؎صحیح البخاری:2/1(3)،باب کیف کان بدءالوحی الٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،المکتبۃ المظھریۃ