قرب الہی کا اعلی مقام |
ہم نوٹ : |
|
کرے؟ ایسا نہ کہو، جوانی ہی تو خدا پر فدا کرنے کی چیز ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری شرح بخاری میں حدیث نقل کی ہے کہ جو جوان اللہ کی فرماں برداری میں اپنی جوانی فنا کردے، اپنے عیش و لذت اور آرام کو اللہ کے نام پر قربان کردے۔ قیامت کے دن اللہ اس کو اپنے عرش کا سایہ دے گا جس دن کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ کتنی مبارک ہے وہ جوانی جو اللہ کی یاد میں گزر جائے۔اختر اس جوان کو، اس جوان کے قدم اور اس جوان کی پیر کی خاک کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہے۔ جو جوان اللہ کی یاد میں اور اس کی فرماں برداری میں لگ جائے۔ جو اللہ کے راستے کے غم کو حلوہ سمجھ کر کھالے، ان کے راستے کے کانٹوں کو پھولوں کی طرح پیار کرے۔ اگر نگاہ بچانے میں دل پر غم آگئے تو خود کو مبارک باد پیش کرو، اس وقت اپنے دل سے کہو کہ اے دل مبارک ہو تجھے کہ تجھے اللہ کےر استے میں غم اٹھانے کا موقع ملا، اے دل مبارک ہو تجھے یہ کانٹا خدا کے راستے کا کانٹا ہے جس کو ساری دنیا کے پھول سلامی دیں تو بھی اس کانٹے کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ جب نظر کی حفاظت کی توفیق ہوجائے تو ایسے موقع پر اپنے دل کو مبارک باد پیش کیا کرو۔ افادیتِ صحبتِ اولیاء تجربہ کی ایک بات عرض کرتا ہوں کہ اہل اللہ کے پاس آنے جانے سے یہ نہ سمجھیے کہ آپ بالکل معصوم ہوجائیں گے، ذکر اللہ کی پابندی سے، اللہ والوں کے پاس آنے جانے سے نفس تھوڑا مہذب تو ہوجائے گا لیکن کبھی کبھار تھوڑی شوخی بھی کرے گا، کبھی گردن ہلائے گا، کبھی گرانے کی کوشش کرے گا لیکن گرا نہیں پائے گا ان شاء اللہ۔ لہٰذا اللہ والوں کے پاس آنا جانا رکھیے اگرچہ آپ کے ارادے ٹوٹتے رہیں، توبہ ٹوٹتی رہے مگر اہل اللہ کی صحبت کو نہ چھوڑو، ان کا بتایا ہوا ذکر مت چھوڑو،ان کا بتایا ہوا جرمانہ ادا کرتے رہو، چاہے اللہ کے راستے میں گرتے پڑتے رہو، جو گرتا پڑتا چلتا رہے گا وہ بھی منزل پر پہنچ جائے گا۔ حضرت مولانا خیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اکابر خلفاء میں سے ہیں، ان کا خیر المدارس ملتان میں مدرسہ ہے، ایک دن فرمایا کہ دیکھو اہل اللہ سے جڑے رہو،وہ جو کچھ وظیفہ بتائیں اس کو پڑھتے رہو،اگر تم نفس پر غالب نہ آسکے، مغلوب