قرب الہی کا اعلی مقام |
ہم نوٹ : |
|
ایک مریض عشق کا قصہ کل میرے پاس بیرونِ ملک سے ایک خط آیا، وہ بے چارا حسن فانی کے رنگ وروپ پر عاشق ہوکر کسی کی محبت میں مبتلا ہوگیا تھا، اس نے لکھا ہے کہ میری نیند اُڑی ہوئی ہے۔ خبیث محبت میں، مردار اور مرنے والی لاشوں کے چکر میں پڑنے کی وجہ سے وہ لکھتا ہے کہ مجھے اتنا غم ہے کہ میرا غم پورے شہر پر تقسیم کردیا جائے تو وہ غم پورے شہر کے لیے کافی ہوجائے۔اگر اس غم سے نجات نہ ملی تو میں عن قریب پاگل ہوجاؤں گا۔ کل مجھے یہ خط تقریباً گیارہ بارہ بجے ڈاک سے ملا،حالاں کہ میں تھکا ہوا تھا لیکن ایسے خط کا جواب دینے میں اختر دیر نہیں کرتا، مصیبت زدہ کے خط کا جواب میں فوراً دیتاہوں، چناں چہ میں نے اسی وقت جوابی خط لکھ کر رجسٹری کردی،حالاں کہ رجسٹری کے لیے مطالبہ نہیں تھا۔ اور میں نے اس میں کیا لکھا؟ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب ہے ’’التکشف‘‘اس میں حضرت نے ڈیڑھ صفحہ پر عشق مجازی کا علاج لکھا ہے، وہ ڈیڑھ صفحہ میں نے خود نقل کیا، اس وقت میرے پاس کوئی دوست نہیں تھا کہ میں اس سے لکھواتا، حالاں کہ بہت ضعف تھا، لیکن میں نے خود لکھا کہ شاید کسی بندے کی خدمت میری مغفرت کا بہانا ہوجائے۔ ایسا غم زدہ شخص جو پاگل ہونے کے قریب ہو،ایساغم زدہ شخص جو کہتا ہو کہ اگر میرا غم پورے شہر پر تقسیم کیا جائے تو پورے شہر کے لیے کافی ہوجائے گا، کیا ایسے شخص کی دستگیری اور راہ نمائی نہ کی جائے؟ میں نے لکھ دیا کہ میں تمہیں وہ جواب لکھ رہا ہوں جو حکیم الامت مجدد الملت نے اپنے مریضوں کو لکھا تھا،جو اس مرض کے لیے سو فی صد مفید،سو فی صد مجرب ہے۔ یہ دوا اگرچہ کڑوی ہے مگر پی جاؤ، ان شاء اللہ! شفا ہوجائے گی۔ اور میں نے ’’التکشف‘‘ کا حوالہ کیوں لکھا؟ کیوں کہ حوالہ لکھنے سے، اپنے بڑوں کی طرف نسبت کرنے سے بات کا وزن اور بات کی قیمت بڑھ جاتی ہے، اگر میں حضرت تھانوی کا حوالہ نہ لکھتا تو ہوسکتا ہے کہ اس کے دل میں شیطان وسوسہ ڈالتا کہ یہ تو چھوٹا موٹا پیر ہے، پتا نہیں اپنی طرف سے ایسے ہی لکھ دیا ہے۔ لہٰذا میں نے حکیم الامت مجدد الملت کی کتاب ’’التکشف‘‘ کا حوالہ اور اس کا صفحہ نمبر ۵۷ بھی لکھ دیا۔ آپ جانتے ہیں اس کا کیا اثر ہوگا؟ حکیم الامت کے نام کا حوالہ دیکھ کر ان شاء اللہ! وہ اس پر عمل