توشہ آخرت کے اعمال |
ہم نوٹ : |
کار، منتہا،ہر چیز آپ کے اختیار میں ہے۔اوّل و آخر تو اللہ کی صفت ہے اور منتہا سے مراد وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ہے کہ اللہ آپ ہم کو تقویٰ دے دیں تاکہ ہمارا انجام بہتر ہوجائے۔ یہاں پر منتہا انجام کے معنیٰ میں ہے۔ طلبِ فضل خداوندی کر د گار ا منگر اندر فعل ما دست ما گیر اے شہ ہر دوسرا مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے ہمارے مالک! ہمارے فعل پر نظر نہ کیجیے، ہمارے افعال میں غور نہ کیجیے کیوں کہ اگر آپ ہمارے فعل پر نظر کریں گے تو آپ کو ہم سے نفرت ہوگی لہٰذا آپ اپنے کرم پر نظر کیجیے۔ اس شعر میں یہ دوسرا جملہ محذوف ہے یعنی ہماری زشتی اور بُرائی پر نظر نہ کریں، اپنے حسن کرم، حسن عطا، حسن مغفرت اور حسن اصلاحِ نفس پر نظر کریں، آپ میں یہ سب خوبیاں ہیں لہٰذا آپ اپنی ذات پر، اپنے فضل پر نظر کرتے ہوئے ہم پر فضل کردیں۔ کیوں کہ ہمارے اعمال پر نظر کریں گے تو ہم محروم ہوجائیں گے لہٰذا اے دو جہاں کے مالک! ہماری دستگیری فرمائیے، اپنی نظر کرم سے ہماری مدد کیجیے ۔ دعائے طلبِ مغفرت خوش سلامت ما بہ ساحل باز بر اے رسیدہ دست تو در بحر و بر اے خدا!سلامتی کے ساتھ مجھ کو ساحل تک پہنچادیجیے۔ کون سا ساحل؟ مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کی جس زندگی میں سفر کررہے ہیں جس میں ہم کو جائز و ناجائز کا اہتمام کرنا فرض ہے۔یہ عالم تکلیف ہے کیوں کہ ہم شریعت کے اُمور کے مکلف ہیں،موت کے وقت ہماری کشتی ساحل پر لگے گی۔ اسی لیے مولانا رومی کہتے ہیں کہ اے خدا!سلامتی کے ساتھ، اپنی رضامندی کے