توشہ آخرت کے اعمال |
ہم نوٹ : |
|
سے جوامع الکلم سے کچھ کچھ حصہ غلامی کے طور پر ملتا ہے۔ اس کے بعد حضرت حکیم الامت تھانوی نے ایک بات ارشاد فرمائی کہ دیکھیے مفتی حسن صاحب!اللہ تعالیٰ بندوں پر جو کچھ بھی حالات بھیجتے ہیں جس سے بندہ غمگین ہوجاتا ہے اسے بندےکو اپنے لیے خیر سمجھنا فرضِ عین ہے،چاہے اولاد کا انتقال ہو یا کوئی مرض ہو یا مقروض رہنا ہو یا صحت کا نہ ہونا ہو، غرض کوئی بھی غم و پریشانی آئے بندے کے لیے ہر ناموافق حالات کو اپنے لیے خیر سمجھنا مستحب اور واجب نہیں فرضِ عین ہے۔ مصائب پر صبر و شکر کےعقلی و نقلی دلائل پھر حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ اب اس کے عقلی دلائل بھی پیش کرتا ہوں، مصائب پر صبر کرنے کے نقلی دلائل تو ہیں ہی جیسے حدیثِ پاک ہے حَمِدَ اللہَ وَ وَصَبَرَ 2؎ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مصائب پر الحمدللہ کہنے کی کیا وجہ ہے؟ مصائب پر تو صبر ہونا چاہیے پھر حَمِدَ اللہَ کیوں ہے؟ اللہ تعالیٰ کا کس بات پر شکر ادا کیا جائے؟ اس کی شرح میں ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ وجہ یہ ہے لِعِلْمِہٖ بِمَا یُصَابُ عَلَیْہِ کیوں کہ مؤمن کو علم ہے کہ اس کو کتنا اجر و ثواب ملے گا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے مَا وَقٰی اَکْبَرُ مِنْھَا اَوْ اَکْثَرُ 3؎ یعنی اس سے بڑی اور کثیر بلا نہیں آئی۔اور اس نازل شدہ بلا کی وجہ سے تکبر اور اکڑ نہیں آتی،لہٰذا بندہ اس پر شکر ادا کرتا ہے۔ تو بلا و مصیبت پر صبر تو کرو لیکن الحمدللہ بھی کہو۔ مصائب پر صبر و شکر کے بارے میں دلائل نقلیہ موجود ہیں مگر اللہ والوں کے قلوب کو اللہ تعالیٰ بعض عقلی دلائل بھی عطا فرماتےہیں۔ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ میں چار عقلی دلائل پیش کرتا ہوں، اہل علم حضرات ان چاروں دلیلوں کو غور سے سنیں، حکیم الامت کے علوم پر عش عش کراٹھیں گے، وجدآجائے گا۔ _____________________________________________ 2؎کنزالعمال:297/3(6637) ،باب فی الاخلاق والافعال المحمودۃ،مؤسسۃالرسالۃ 3؎مرقاۃ المفاتیح:93/4،باب البکاء علی المیت، المکتبۃ الامدادیۃ، ملتان