توشہ آخرت کے اعمال |
ہم نوٹ : |
|
حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جب بندے کو کوئی مصیبت آتی ہے، ناموافق حالات آتے ہیں تو وہ چار حالتوں سے خالی نہیں۔ذرا حضرت کا حصر دیکھیے فرماتے ہیں کہ اگر بندے پر مصیبت بھیجنے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نفع ہو تو میں اس پر استحالہ اور محال وارد کرتا ہوں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو تکلیف پہنچاکر کوئی فائدہ اٹھائیں یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض ثابت ہوجائے گی یعنی اللہ تعالیٰ محتاج ہوجائیں گے کہ بندوں کو مصیبت دے کر خود نفع اٹھاتے ہیں، تو اس شکل پر محال لازم ہوگیا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ مصیبت میں کچھ فائدہ بندے کا ہو اور کچھ فائدہ اللہ میاں کا ہو، یعنی مضاربت کی صورت ہو، فرمایا یہ بھی محال ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا حرام اور کفر ہےکیوں کہ بندوں کو تکلیف دے کر اللہ تعالیٰ کوئی نفع اٹھائیں چاہے کامل نفع اٹھائیں یا بصورتِ مضاربت کچھ نفع خدا اٹھائے کچھ بندہ اٹھائے تو یہ مضاربت والی دوسری شکل بھی اللہ کی شان کے خلاف ہے کہ اللہ تعالی مخلوق کو تکلیف دے کر ایک ذرہ بھی نفع اٹھالیں،یہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ الوہیت کے خلاف ہے۔ تیسری شکل یہ ہے کہ مصیبت آنے میں نہ بندے کا نفع ہو نہ اللہ میاں کا نفع ہو تو فرمایا یہ تو کسی عقل والے کا فعل بھی نہیں ہوسکتا، مخلوق بھی اگر کوئی ایسی حرکت کرے کہ اس میں کسی کا کوئی فائدہ نہ ہو، نہ خود اس کا فائدہ ہو اور نہ دوستوں کا فائدہ ہو تو کہتے ہیں کہ کیا لغو حرکت کرتے ہو۔ غیر مفید کام کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے۔ اب رہ گئی چوتھی شکل، تین شکلوں پر تو استحالہ وارد کردیا،اب چوتھی شکل ہے کہ مصیبت نازل ہونے میں خالص بندےہی کا نفع ہے۔ سبحان اللہ!اہل علم حضرات اس کی قدر کرسکتے ہیں۔ جو علماء معقولات سے واقف ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت تھانوی نےمنطقیین اور میزانییں کے اصول پر جواب دیا ہے۔ حکیم الامت اس طریقے سے حصر کرتے تھے۔ توکّل پر تأکل کا انتظام حضرت! میں نے سوچا کہ حضرت تھانوی کے اس ملفوظ کو آپ کی خدمت میں پیش کروں، حضرت اپنے ابا کے موتی کی قدر کریں گے،تھانہ بھون کے جواہرات کی قدر اس کے عاشق ہی کرسکتے ہیں۔ اب حکیم الامت کا ایک واقعہ اور پیش کرتا ہوں۔ ایک رئیس حضرت