توشہ آخرت کے اعمال |
ہم نوٹ : |
یا اللہ! میں آپ کے سوا تمام ماسوا سے ناامید ہوجاؤں۔ ماسویٰ یعنی قلب کو اللہ کے لیے خالی کرنا،انسان کےاندر یہ کیفیت ذکر و شغل سے پیدا ہوتی ہے، ماسویٰ سے قلب کو خالی کرنا کیفیتِ احسانی پیدا کرتا ہے جس کے باعث ہر چیز میں عجیب نورانی اثر پیدا ہوجاتا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے جس کو ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ اَلْاِسْمُ الْاَعْظَمُ ھُوَ اللہُ ، بِشَرْطِ اَنْ تَقُوْلَ اللہَ وَ لَیْسَ بِقَلْبِکَ سِوَی اللہِ 4؎ اسم اعظم درحقیقت اللہ کامبارک نام ہی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جب تواللہ کانام لے تو اللہ کے سوادل میں کوئی نہ ہو۔حضرت! عبارت کی شوکت دیکھیے۔ اللہ والوں کو اللہ شاندار عبارت عطا کرتا ہے۔مولانا فرماتے ہیں کہ ؎از ہمہ نومید گشتیم اے خدا ہم نے ساری مخلوقات سے اپنے قلب کو خالی کرلیا۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب کا شعر ہے ؎ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی اے خدا! ہم آپ کے ماسویٰ سے، ساری مخلوقات سے ناامید ہوگئے، یہاں تک کہ خود اپنے آپ سے بھی ناامید ہوگئے،ہم نے بارہا توبہ کی، بارہا ٹوٹی،اپنے نفس کی اصلاح کرتے کرتے اپنے دست و بازو سے ناامید ہوگئے، غیروں سے تو ناامید ہوئے ہی تھے خود اپنی ذات سے بھی مایوس ہوگئے کہ ہم اپنی طاقت، اپنی استعداد و صلاحیتیں، اپنے عزائم اور ہمتیں، اے اللہ! ہم سب سے مایوس ہوگئے، بارہا اپنی رسوائی دیکھ لی، بڑے بڑے وعدے اور ہمت اور ارادے کیے مگر جب کبھی گناہ کا موقع آتا ہے تو نفس اور شیطان غالب آجاتے ہیں،ساری توبہ ٹوٹ جاتی ہے۔ مولانا اپنی عاجزی کا اظہار فرماتے ہیں کہ اے خدا! میں اوّلاً تمام مخلوقات سے اور ثانیاً اپنے قویٰ، اپنے حواس اور اپنی ذات سے بھی مایوس ہوچکا ہوں، مجھے اب اپنی طاقت پر کوئی بھروسہ نہیں رہا، اوّل اور آخر،ابتدااور انتہا سب کچھ آپ کے قبضے میں ہے، آپ کی ذات اوّل بھی ہے اور آخر بھی ہے اور منتہا بھی آپ کے قبضے میں ہے یعنی وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ انجام _____________________________________________ 4؎مرقاۃ المفاتیح:57/5،باب اسماءاللہ تعالٰی،المکتبۃ الامدادیۃ،ملتان