توشہ آخرت کے اعمال |
ہم نوٹ : |
|
ساتھ ہم کو ساحل تک پہنچادیجیے یعنی جب ہماری روح نکلے تو ایمان و تقویٰ کے ساتھ نکلے، جب انسان کی روح قبض ہوگی تو دنیا کی زندگی کا دریا ختم ہوگیا،دنیا کا سفر ختم ہوگیا لہٰذا اے اللہ! اپنی رحمت سے ہم کو سلامتی کے ساتھ ساحل تک پہنچادیجیے یعنی نفس اور شیطان کے طوفان، خواہشات کے طوفان یہ ہماری کشتی کو ڈبو نہ دیں۔کبھی کبھی نفس اور شیطان سے لڑائی میں بڑے بڑے سالکین بھی چت ہوجاتے ہیں،اسی کو مولانا فرماتے ہیں کہ بارہا ہمیں اپنی کشتی ڈوبتی ہوئی نظر آئی لیکن اے خدا!آپ اس کو پھر سنبھال لیجیے، جب ڈوبنے لگے پھر سنبھال لیجیے،اس شعر میں’’باز بر‘‘ بار بار کے لیے ہے یعنی جب کشتی خطرے میں پڑجائے آپ سنبھال لیجیے یہاں تک کہ ساحل پر لگ جائے اور ہم خیریت سے پار ہوجائیں۔ جب میں دریا کا سفر کرتا ہوں تو بِسۡمِ اللہِ مَجۡرٖىہَا وَ مُرۡسٰىہَا 5؎ پڑھنے کے بعد مولانا رومی کا یہ شعر بھی پڑھ دیتا ہوں ؎خوش سلامت ما بہ ساحل باز بر اے رسیدہ دست تو در بحر و بر اے خدا!میری کشتی کو سلامتی کے ساتھ ساحل پر لگا دیجیے کیوں کہ آپ کا ہاتھ خشکی میں بھی پہنچا ہوا ہے اور سمندر میں بھی پہنچا ہوا ہے ۔اگر ہم خشکی میں گناہ میں مبتلا ہیں تو خشکی میں بھی اللہ ہماری مدد کرے گا، اگر سمندر میں یا دریا میں ہم اگر کسی گناہ میں مبتلا ہیں تو وہاں بھی اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت پہنچا ہوا ہے، کیوں کہ اے اللہ! آپ خشکی اور تری کے مالک ہیں، آپ کی قدرتِ کاملہ کی رسائی خشکی اور تری ہر جگہ ہے۔ یوں سمجھیے کہ اگر شیطان اور نفس کسی کو ورغلا کر،بدکاری کراتے کراتے ڈھاکہ سے سندر بن کے جنگل میں لے گئے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس جنگل میں بھی اسے تلاش کرلے گی اور اس کو توفیق توبہ دے کر ڈھاکہ واپس لے آئے گی یعنی گمراہی کے انتہائی مقام پر پہنچنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اپنے بندے کو ولایت عُلیا سے نواز سکتی ہے، اس شخص کو انتہائی گمراہی سے ہدایت کی طرف واپس لا سکتی ہے۔ اللہ کے یہاں تھکاوٹ نہیں ہے، خدا کبھی اپنے بندوں سے یہ نہیں فرمائے گا کہ اب تم ناقابلِ واپسی ہوچکے۔ _____________________________________________ 5؎ھود:41