علامات ولایت |
ہم نوٹ : |
|
رضا بالقضاء کا مقام ابو داؤد شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض بندوں کا درجہ بہت اونچا لکھا ہے مگر ان کا عمل ویسا نہیں ہے جو اس درجہ عالیہ پر پہنچ سکیں، تو اللہ تعالیٰ ان کو اولاد کے معاملے میں کوئی غم دیتے ہیں اور پھر صبر کی طاقت دیتے ہیں، پھر اس مقام بلند کو اللہ تعالیٰ ان کے نام لکھ دیتے ہیں ؎ جو ہوا اچھا ہوا بہتر ہوا وہ جو حسبِ مرضیِ دلبر ہوا بتائیے! کیسی زبردست تسلی کی تقریر ہے لیکن مصیبت مانگنا جائز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ سے تو عافیت ہی مانگیں مگر مصیبت آجائے تو سمجھ لو کہ ہمارا درجہ بلند ہورہا ہے، اس سے ہمیں کوئی نہ کوئی فائدہ ہورہا ہے۔ تکالیف میں اور غم میں یہ عقیدہ رکھنا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماراکوئی فائدہ ہے، اس کا نام رضا بالقضاء ہے اور یہ فرض ہے، ایسا فرض ہے جیسے روزہ،نماز اور حج فرض ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ مولانا! یہ بتاؤ کہ اخلاص سے بھی کوئی اونچا مقام ہے؟ عرض کیا حضرت! مجھے نہیں معلوم، ہم تو سمجھتے ہیں کہ اخلاص سب سے اونچا مقام ہے۔ تو فرمایا کہ اخلاص سے اونچا مقام رضا بالقضاء ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر راضی رہو۔غم سے دل شکستہ ہوتا ہے اور خدا اسی ٹوٹے ہوئے دل کو اپنا گھر بناتا ہے اور اپنی تجلیات کو اس کے دل کے ذرّہ ذرّہ میں داخل کردیتا ہے۔ ساری دنیا کے مفسرین نے لکھا ہے کہ کوہِ طور اﷲ کی تجلیات کا تحمل نہیں کرسکا تھا اس لیے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا مگر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کو اللہ نور سے بھر دے، انہوں نے فرمایا کہ اس میں ایک نکتہ اور بھی ہے کہ طور پہاڑ خدا تعالیٰ کا عاشق تھا، جب اس کی بیرونی سطح پر تجلی نازل ہوئی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تاکہ خدا کی تجلی میرے اندر بھی آجائے ؎ بر برونِ کوہ چو زد نورِ صمد پارہ شد تا در درونش ہم زند