رمضان ماہ تقوی |
ہم نوٹ : |
تھک جائیں ۔ اس لیے آپ نے اپنی امت کو یہ دعا سکھادی، ثَنَاءُ الْکَرِیْمِ سکھا دیا کہ بس تم جاکر کریم کی تعریف کردو تو جو تم نے زندگی بھر مانگا ہے اللہ وہ بھی دے دے گا اور جو نہیں مانگا وہ بھی بلا مانگے دے دے گا، خزانۂ کرم لُٹا دے گا۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر میں ثَنَاءُ الْکَرِیْمِ سے ابتداء کرکے ہمیں التجاء کرنا سکھا دیا کہ اے اللہ!آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، اگرچہ ابھی یہ نہیں کہا کہ معافی دے دیجیے، مگر اللہ کی اس تعریف کا مضمون حامل دعائے مغفرت، حامل دعائے معافی ہے۔بعض روایات میں اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ ہےاوربعض روایت میں لفظ کَرِیْمٌ نہیں ہے، لیکن جب مضمون کہیں مطلق ہو اور کہیں مقید ہو تو وہ قید،مطلق کے ساتھ بھی لگ جاتی ہے، لہٰذا جہاں کَرِیْمٌ کا لفظ نہیں ہے وہاں بھی کَرِیْمٌ لگ جائے گا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمالِ بلاغتِ نبوت ہے کہ آپ نے کَرِیْمٌ کا لفظ بڑھادیا تاکہ اللہ کے کرم سے نالائق امتی بھی محروم نہ رہنے پائے۔ اب کریم کی چار شرح کرتا ہوں جس سے آپ کریم کی تعریف خوب اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔ کریم کی پہلی تعریف اَلْکَرِیْمُ ھُوَ الَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ الْاِسْتِحْقَاقِ وَالْمِنَّۃِ کریم وہ ہے جو نالائقوں پر مہربانی کردے اگرچہ نالائقی کی وجہ سے ہمارا حق نہ بنتا ہو ۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم گنہگاروں پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس دعا میں کَرِیْم کا لفظ بڑھادیا کہ اگر گناہوں کی وجہ سے میری امت کا مغفرت اور معافی کا حق نہ بنتا ہو تو کَرِیْم کے اس لفظ کی برکت سے اس کو استحقاق کا راستہ مل جائے کہ اللہ آپ کریم ہیں اور کریم وہ ہے جو نالائقوں پر مہربانی کردے، چاہے اس کا حق بنے یا نہ بنے۔ جیسےکسی کا سودا نہ بِک رہا ہو، سورج ڈوب رہا ہو اور بیچنے والا مایوس ہورہا ہو، تو کریم پوچھتا ہے کہ کیا بات ہےتم سامان نہیں سمیٹ رہے؟ تو وہ کہتا ہے کہ صاحب سامان نہیں بک رہا ہے، کیوں کہ سودا عیب دار ہے، تو کریم کہتا ہے کہ لاؤ مجھے بیچ دو۔ تو کریم سارا عیب دار سودا خریدلیتا ہے۔