رمضان ماہ تقوی |
ہم نوٹ : |
|
کہ ۲۹یا ۳۰شعبان کو سورج غروب ہونے کے بعد آتا ہے۔بس مولوی صاحب تو چلے گئے اور ۲۹ شعبان کو سب دیہاتی لاٹھی لے کر دوڑے کہ رمضان کو مار ڈالو پھر روزہ فرض ہی نہیں ہوگا۔ اب رمضان کو لاٹھی سے مارنے کے لیے سب لوگ گاؤں سے باہر نکلے تاکہ نہ رمضان آئے اور نہ روزہ فرض ہو،مولوی صاحب سے پوچھ ہی لیا تھا کہ رمضان مغرب کی طرف سے آئے گا۔ جب وہ مغرب کی طرف پہنچے تو دیکھا کہ ایک اونٹ والا آرہا ہے اور سورج ڈوب رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ اے اونٹ والے! تیرا کیا نام ہے؟ اس نے کہا کہ میرا نام رمضان علی ہے۔ بس سب نے کہا کہ یہی ہے رمضان، یہی روزہ فرض کرے گا، تو اس کی خوب پٹائی کی، اب وہ جان بچا کر بھاگا کہ پتا نہیں یہ مجھے کیوں ماررہے ہیں۔ ایک مہینے کے بعد مولوی صاحب پھر آئے اور وعظ کہنے لگے اور فرمایا کہ بھائیو! تم لوگوں نے روزہ رکھا؟ کہنے لگے کہ ہم نے تو رمضان کو ہی آنے نہیں دیا، مار مار کر بھگادیا۔ روزہ کی فرضیت میں اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت کا ظہور تو رمضان ڈرنے کا مہینہ نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت کو جس طرح بیان فرمایا ہے یہ بھی اللہ کے اللہ ہونے کی دلیل ہے کہ وہ حاکم محض نہیں ہےارحم الراحمین بھی ہے۔ جو حاکم ہوتا ہے وہ تو مارشل لا کی سی بات کرے گا کہ روزہ رکھنا پڑے گا، خبردار! کھال کھنچوا دوں گا، بھوسہ بھروا دوں گا لیکن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے کتنے پیارے انداز میں فرمایا کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ا ے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ یعنی گھبرانا مت، یہ کوئی مشکل چیز نہیں ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ پچھلے لوگوں پر روزہ کے فرض ہونے کا تذکرہ کرنا اپنے غلاموں پر روزہ کو آسان کرنے کی تدبیر ہے کہ روزہ کوئی ایسی مشکل چیزنہیں ہے کہ سحر سے لے کر غروب تک خالی پیٹ رہنے سے کوئی مرجائے گا، تم سے پہلے بھی لوگ روزہ سے رہے ہیں، روزہ بھی رکھا اور زندہ بھی رہے، لہٰذا اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت! تم پریشان نہ ہونا، مشقت تھوڑی سی ہے لیکن اس کا انعام بہت بڑا ہے۔ جس کو دنیا میں