رمضان ماہ تقوی |
ہم نوٹ : |
|
بڑا انعام مل جائے تو بڑی سے بڑی مشقت اُٹھانے کو تیار ہوجاتا ہے مثلاً جون کا مہینہ ہے، گرمی شدید ہے، لُو چل رہی ہے اور حکومت نے اعلان کردیا کہ جو اس وقت کیماڑی تک پیدل جائے گا اُس کو پیٹرول پمپ کا ایک پلاٹ ملے گا جو پچاس لاکھ کا ہوگا اور مفت میں ملے گا۔ تو اس وقت کتنے لوگ جو اے سی میں بیٹھے ہوں گے اے سی سے کہیں گے تیری ایسی تیسی۔ روزہ داروں کے لیے ایک عظیم انعام حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے بہشتی زیور میں روزہ کے باب میں لکھا ہے کہ روزہ داروں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عرش کے نیچے بلائے گا اور فرمائے گا کہ اے رمضان کے روزے رکھنے والو! تم ہمارے مہمان ہو، کیوں کہ تم نے اپنا پیٹ جلایا تھا، کھانا ہوتے ہوئے بھی ہمارے خوف سے نہیں کھایا تھا، تم ہمارے عرش کے نیچے آؤ، تمہارے لیے دسترخوان بچھایا جائے گا۔ 3؎قیامت کے دن جب اور لوگوں کا حساب کتاب ہورہا ہوگا اور سورج کی گرمی سے کھوپڑی کھول رہی ہوگی تو روزہ داروں کے لیے عرش کے سائے میں دسترخوان بچھے گا۔ جہاں عرش کا سایہ ہوگا وہاں حساب نہیں ہوگا اور جہاں حساب ہوگا وہاں سایہ نہیں ہوگا لہٰذا عرش کا سایہ ملنا یہ دلیل ہے کہ سائے والے سب جنت میں جائیں گے کیوں کہ جہاں سایہ ہوگا وہاں حساب نہیں ہوگا اور جہاں حساب ہوگا وہاں سایہ نہیں ہوگا۔ روزہ داروں کے لیے دو خوشیاں ترمذی شریف کی روایت ہے کہ روزہ داروں کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک دنیا میں افطار کے وقت اور دوسری قیامت کے دن جب وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے۔ افطار میں روزہ دار کو اتنا مزہ آتا ہے کہ روزہ خور اس سے محروم ہوتا ہے۔ افطاری کے وقت روزہ دار اور غیر روزہ دار کے چہرے سے پہچان لوگے۔ اگر کسی نے روزہ نہیں رکھا لیکن پھر بھی کھا رہا ہے کہ یار دہی بڑا کون چھوڑے تو اُس کا چہرہ بتادے گا کہ اس ظالم نے روزہ نہیں رکھا۔روزہ دار کے چہرے پر ایک نور ہوتا ہے، ایک چمک ہوتی ہے۔ _____________________________________________ 3؎اخرجہ ابن ابی الدنیا فی کتاب الجوع