رمضان ماہ تقوی |
ہم نوٹ : |
|
میں پڑھ کر آنا چاہیے۔ اس لیے کہ گناہ کا چھپانا اور گناہ پر اپنے لیے گواہ نہ بنانے کا بھی حکم ہے۔ جب انسان سب کے سامنے قضاء نماز پڑھے گا تو لوگوں کو شک ہوگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے فجر کی نماز قضاء کردی ہے۔اسی طرح قضاء عمری کا بھی یہی حکم ہےمثلاً فجر اور عصرکےفرضوں کے بعد نفل نماز پڑھنا جائز نہیں ہے تو ان نمازوں کے بعد مسجد میں قضاءعمری ادا کرنے سے بچیں ورنہ لوگوں کو شک ہوگا کہ ابھی تو جماعت سے فجر یا عصر کی نماز پڑھی ہے تو اب یہ کون سی نماز پڑھ رہے ہیں، کہیں قضاء نماز تو ادا نہیں کررہے ہیں۔ توجس طرح سے نماز قضاء کرنا گناہ ہے اسی طرح اس گناہ کو ظاہر کرنا بھی گناہ ہے۔ عید گاہ میں مصافحہ و معانقہ سے پرہیز کریں جب مسلمان کہیں دور سے مثلاً کسی دوسرے شہر سے آئے اس وقت مصافحہ اور معانقہ کرناسنت ہے۔ لیکن یہاں تو عید کی نماز و خطبہ ختم ہوا تو بس سب معانقہ اور مصافحہ کرنے اور ایک دوسرے کو دبانے میں لگ جاتے ہیں۔ مجھے ایک دفعہ ایک شخص نے بہت زور سے دبایا کہ اگر میں اس سے جان نہیں چھڑاتا تو میری پسلی ٹوٹ جاتی۔ یہ کون سی سنت ہے؟ نماز پڑھتے ہی مصافحہ کرنے کے بارے میں ملا علی قاری مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں لکھتے ہیں اَلْمُصَافَحَۃُ بَعْدَ الصَّلٰوۃِ مَکْرُوْہٌ کہ نماز کے بعد مصافحہ کرنا مکروہ ہے۔ مسجد نبوی میں نماز کے بعد ایک صاحب نے مجھ سے مصافحہ کیا، جب میں نے ان کو عربی میں کہا اَلْمُصَافَحَۃُ بَعْدَ الصَّلٰوۃِ مَکْرُوْہٌ تو انہوں نے کہا جزاک اللہ۔ عید کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے کا یہ طریقہ بھی اہلِ بدعت نے ایجاد کیا ہے کہ سلام پھیرتے ہی ہاتھ ملالیا،یہ مصافحہ غیر شرعی ہے، اور اس کی دلیل دینا میرے ذمہ ہے، جن صاحب کو دیکھنا ہو میں ان کو عربی کی کتابوں میں دِکھا سکتا ہوں۔ لہٰذا اس کا خیال رکھیے کہ عید کے دن نماز پڑھنے کے فوراً بعد مصافحہ کرنا صحابہ سے ثابت نہیں ہے اور یہ شریعت کے اندرتحریف ہے، کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دور سے آنے والوں سے مصافحہ اور معانقہ فرمایا ہے۔ ہاں البتہ جب مسجد یا عید گاہ سے چلے گئے مثلاً اب گھر پر کوئی مہمان آئے تو وہاں مصافحہ اور معانقہ دونوں کرنا جائز ہے، مصافحہ بھی کرسکتے ہیں اور اظہارِ خوشی کے لیے