رمضان ماہ تقوی |
ہم نوٹ : |
|
دعا سکھائی ہے۔ جو دعا عظیم القدر پیغمبر نے شبِ قدر کے لیے سکھائی ہو وہ کس قدر قابلِ قدر ہوگی، جب پیغمبر عظیم القدر، موقع شبِ قدر اور دعا قابلِ قدرہو تو وہ دعا کس قدر عظیم القدر ہوگی، وہ دعا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ 14؎اے اللہ! بے شک آپ بے حدمعاف کرنے والے اور کرم فرمانے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں، پس مجھے معاف فرما دیجیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شب قدر میں مانگنے کے لیے یہ دعا سِکھائی ہے۔ میں اس کی شرح اپنی طبیعت سے نہیں کررہا ہوں، محدثِ عظیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مشکوٰۃ شریف کی عربی زبان میں چودہ جلدوں پر مرقاۃ کے نام سے شرح فرمائی ہے، وہ اس دعا کی شرح لکھتے ہیں جسے میں بعینہٖ اور بالفاظہٖ نقل کررہا ہوں، ان شاء اللہ آپ بڑی کتابوں میں اس کے خلاف نہیں پائیں گے۔ تو ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ اَیْ اِنَّکَ اَنْتَ کَثِیْرُ الْعَفُوُّ اے اللہ! بے شک آپ بہت زیادہ معافی دینے والے ہیں، عَفُوٌّ مبالغہ کا وزن ہے یعنی آپ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی معافی دینے والا نہیں ہے،آپ کی معافی کا سمندر اور معاف کرنے کی ادا اور معاف کرنے کی صفت غیر محدود ہے،اگرچہ ہمارے گناہ اکثریت میں ہیں لیکن محدود ہونے کی وجہ سے آپ کی غیر محدود معافی کے سمندر کے سامنے اقلیت میں ہیں کیوں کہ قاعدہ کلیہ ہے کہ ہر محدود اپنی اکثریت کے باوجود غیر محدود اکثریت کے سامنے اقلیت میں ہوتا ہے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا اللہ تعالیٰ کی ثناء یعنی تعریف سے شروع فرمائی ہے،لہٰذا عَفُوٌّ کَرِیْمٌ سے اللہ تعالیٰ کی تعریف میں یہ دعا بھی شامل ہوگئی ہے کہ ہم کو معاف کردیجیے۔ اس دعا کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی تعریف سے ہوتی ہے، معافی کی یہ درخواست اللہ تعالیٰ کی تعریف سے شروع ہوتی ہے، کیوں کہ علماء کرام لکھتے ہیں کہ ثَنَاءُ الْکَرِیْمِ دُعَاءٌ یعنی کریم کی تعریف کرنا خود دعا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ سے یہ کہنا کہ آپ بہت معافی دینے والے ہیں تو کریم کی یہ تعریف خود حاملِ مضمونِ دعا ہے، حاملِ مضمونِ درخواستِ استغفار ہے۔ _____________________________________________ 14؎مشکوۃ المصابیح:183/1،با ب لیلۃ القدر،المکتبۃ القدیمیۃ