اہل محبت کی شان |
ہم نوٹ : |
|
ہمچو مجنوں بو کنم ہر خاک را بوئے مولیٰ را بیابم بے خطا مولانا رومی فرماتے ہیں کہ مثل مجنوں کے میں بھی ہر مٹی کو سونگھتا ہوں یعنی جسم کو ،کہ جسم بھی تو ایک قبر ہے ،میں اس کو سونگھ کر دیکھتا ہوں کہ کسی کا دل ایسا تو نہیں جس میں مولیٰ ہو، جیسے مجنوں نے لیلیٰ کی تلاش میں قبر سونگھی تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ میں بھی اپنے مولیٰ کی تلاش میں ہرانسان کو سونگھتا ہوں، جس کے دل میں مولیٰ ہے میں فوراً خوشبو سونگھ کر بتا دیتا ہوں۔ شمس الدین تبریزی کی پہلی ہی ملاقات میں مولانا جلال الدین رومی نے بتا دیا کہ حضرت آپ کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ آپ اﷲ والے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ آپ کے اندر طلب ہو، آپ میں بھی اخلاص ہو تب آپ اﷲ والے کو پہچانیں گے، اگر طلب نہیں ہے، پیاس نہیں ہے تو برف ڈالا ہوا بہترین شربت روح افزا موجود ہے لیکن کسی کو بالکل پیاس نہیں ہے، ڈبل نمونیہ ہے، کھانسی بھی آرہی ہے اور منہ میں بلغم بھرا ہوا ہے اگر آپ اس کو شربت پیش کریں گے تو کہے گا مولانا! معاف کیجیے مجھے یہ بالکل مرغوب نہیں ہے ۔ ایسے ہی آج اﷲ و رسول کی طرف رغبت نہ رکھنے والے غفلت کے کینسر میں مبتلا ہیں، اﷲ اور رسول سے غفلت کا ڈبل نمونیہ، دنیا کی محبت کا ڈبل نمونیہ اور کینسر ہے جس سے آج ان کو اﷲ اور رسول سے، مسجد سے اور اﷲ والوں سے گھبراہٹ ہوتی ہے، داڑھی والوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ارے! اﷲ بچائے ان داڑھی والوں سے۔ آہ! یہ کیسا ایمان ہے؟ اور جس کو پیاس ہو تی ہے اس کو اﷲ کی محبت میں زمین سے آسمان تک شربت روح افزا بھرا ہوا معلوم ہوتا ہے اور شربت روح افزا کیا چیزہے اس کو محبت میں ایسی لذت ملتی ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃاﷲ علیہ نے فرمایا کہ ایک بستی میں ایک شخص گیا اور کہنے لگا کہ اس گاؤں میں ہلدی کیا بھاؤ ہے؟ ایک بڑے میاں نے کہا کہ ہلدی کا کوئی بھاؤ نہیں ہوتا جتنی چوٹ پِرائے یعنی چوٹ میں جتنا درد ہوتا ہے اتنا ہلدی کا دام بڑھ جاتا ہے۔ تو جس کو اﷲ کی محبت کی پیاس ہوتی ہے وہ اﷲ والوں کی جوتیاں سر پر رکھ لیتا ہے۔