زندگی کے قیمتی لمحات |
ہم نوٹ : |
|
لاٹھی چلائی ہے اور میرے سر پر ماری ہے۔ اس بزرگ نے فرمایا کہ تم ہی نے تو ابھی کہا تھا کہ سارا عالم میگنٹ سے چل رہا ہے، لہٰذا تیری کھوپڑی میں جو میگنٹ تھا اس نے میری لاٹھی کو کھینچ لیا ہے۔ اگر میری لاٹھی کا میگنٹ زیادہ ہوتا تو تیری کھوپڑی اکھڑ کر میری لاٹھی پر آکر فٹ ہوجاتی۔ بس اس شخص کو اللہ کے وجود کا یقین آگیا۔ بزرگ نے فرمایا کہ جب ایک لاٹھی بغیر چلانے والے کے نہیں چل سکتی، تو سارا نظامِ عالم بغیر چلانے والے کے کیسے چل سکتا ہے؟ کائنات کے آٹومیٹک وجود کے احمقانہ نظریہ کی تردید اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ اس مکان کے درودیوار، چھت اور پنکھے، غرض سارے اجزاء اِدھر اُدھر پڑے تھے، اچانک ایک آندھی آئی اور سریہ فیکٹری سے سریہ اُڑ کر آیا اور سیمنٹ فیکٹری سے سیمنٹ کی بوریاں اُڑ کر آئیں اور مکان کے درودیوار اور چھت خود بخود بن گئی، اس کے بعد سنگِ مرمر کے ٹکڑے کسی دوکان سے اُڑ کے آئے اور خود بخود چھت اور دیوار میں فٹ ہوگئے اور پنکھے کے پَر بھی خود بخود اُڑ کے فٹ ہوگئے اور ایسی ہوائیں چلتی رہیں کہ اس سے اسکرو بھی ٹائٹ ہوگئے۔ آپ ایسے شخص کو نفسیاتی ڈاکٹر یا کسی دماغی اسپیشلسٹ کے پاس لے جائیں گے کہ اس کا دماغ صحیح نہیں ہے۔ تو ایک معمولی سی چھت کے لیے آپ کے اندر عقل آگئی کہ آپ اسے دماغ کی خرابی پر محمول کرتے ہوئے اسے دماغ کے ڈاکٹر کے پاس لے جارہے ہیں، لیکن جو شخص سورج، چاند، ستاروں، سمندروں اور پہاڑوں کے تمام نظام کو دیکھ کر بھی یقین نہیں کرتا کہ اتنی بڑی دنیا جو گول ہے، بغیر تھونی کھمبے کے ہے، اس کا بنانے والا بھی کوئی نہ کوئی ضرور ہے۔ جس طرح ہرمصنوع چیز کے لیے صانع کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح ہر متحرک چیز کے لیے محرک کا ہونا بھی ضروری ہے۔ مثنوی میں ایمان بالغیب کے نظائر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اندھیری رات میں کالی چیونٹی سفید رنگ کا دانہ لیے جارہی تھی۔ دانہ تو سفید تھا لیکن رات اندھیری تھی، کالا پتھر تھا، کالی چیونٹی تھی، دانہ تو چلتا ہوا نظر آرہا تھا لیکن چیونٹی نظر نہیں آرہی تھی۔ اگر کوئی دہریہ قسم کا بے وقوف انسان