زندگی کے قیمتی لمحات |
ہم نوٹ : |
|
بعض لوگ شیخ کے قریب رہ کر تھوڑی سی گرمی پاجاتے ہیں، اس کی وجہ سے ذکر سے غفلت میں پڑجاتے ہیں کہ میرا ایمان تو تازہ ہے، لیکن شیخ کے قُرب کی گرمی کی مثال ایسی ہے جیسے سردی دور کرنے کے لیے آگ جلا کر ہاتھ پاؤں سینکتے ہیں تو گرمی آجاتی ہے، لیکن یہ گرمی عارضی ہوتی ہے، کیوں کہ جیسے ہی ہاتھ پاؤں آگ سے دور ہوں گے پھر ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ اور ذکر کی گرمی کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی موتی کا کشتہ کھا لے تو سردی اثر ہی نہیں کرے گی، جس طرح حکیم اجمل خان دہلوی سردیوں میں ململ پہن کر سورج نکلنے سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے دہلی کا چکر کرتے تھے جبکہ لوگ رضائیوں میں گھسے ہوتے تھے۔ ذکر اﷲ کی طاقت کی مثال حضرت حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو! شیخ کے قرب کی گرمی پر بھروسہ مت کرو،ذکر اﷲ کا کشتہ بھی کھاؤ،کیوں کہ اگر شیخ کا انتقال ہوجائے یاشیخ سے الگ ہوجاؤ، تو اس وقت تمہیں پتا چلے گا کہ ذکر اللہ کیا چیز ہے۔اگر تم نے ذکر اﷲ کا کشتہ کھانے سے تغافل برتا تو نفس و شیطان ایسی پٹخنی لگائیں گے کہ اپنی شکست خوردنی پر خون کے آنسو رونے سے بھی تلافی نہیں کرسکو گے۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیخ کی صحبت جتنی ضروری ہے اس سے زیادہ ذکر اللہ کا اہتمام ضروری ہے۔ آپ بتلائیے کہ کون ہر وقت شیخ کے پاس رہ سکتا ہے؟ جب ذکر اللہ کی کمی ہوگی، روح کمزور ہوگی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ شیخ کی موجودگی ہی میں تم گناہوں میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ ایسے کتنے واقعات ہوئے ہیں کہ لوگ خانقاہوں میں بھی گناہ سے نہیں بچ سکے، اس لیے شیخ کی صحبت کے ساتھ ساتھ ذکر اللہ کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے۔ جہادِ اصغر اگر ذکر اللہ کا محتاج ہے تو جہادِ اکبر بدرجہ اولیٰ اللہ کے ذکر کا محتاج ہے،کیوں کہ یہ بڑا جہاد ہے۔اسی لیے جنہوں نے ذکر اللہ کی پابندی کی وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎اللہ اللہ اسمِ پاکِ نامِ دوست کہ اَللہ اَللہ ہمارے مالک کا نام ہے، اسم گرامی اور اسم شریف ہے۔ وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ اپنے رب کا اسم مبارک لیجیے۔ علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر مظہری کے مصنف