زندگی کے قیمتی لمحات |
ہم نوٹ : |
|
۲) ایسے ہی کسی کا چہرہ غم زدہ دیکھا اور آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس کے غم پر یقین آگیا، حالاں کہ کبھی غم اور آنسو مگرمچھ کے بھی ہوتے ہیں،کبھی پیاز لگا کر مصنوعی آنسو بھی انسان نکال لیتا ہے۔ ناظم آباد میں ایک شخص ہمارے یہاں آیا اور رو رو کر اپنی غریبی ظاہر کرنے لگا۔ ہم نے اس کی کچھ مدد کر دی۔ مگر میرا دل کھٹکا کہ اس کے آنسو مصنوعی ہیں۔ ایک آدمی کواس کے پیچھے لگادیا کہ آگے جاکے دیکھو کہ اس کے آنسو رہتے ہیں یایہ قہقہہ مارتا ہے۔ جس شخص کو پیچھے بھیجا تھا اس نے آکر بتایا کہ وہ تو دیوار کے اس پار جاکر ہنس رہا تھا کہ آج تو بڑا بے وقوف بنایا۔تو انسان اپنے غم پر تو قسم اٹھا لیتا ہے کہ خدا کی قسم! آج میرے دل میں غم ہے، قسم اٹھا رہا ہے جبکہ غم کو دیکھا تک نہیں۔ کوئی پوچھے کہ بھائی غم کا کیا رنگ ہے۔ چونچ ہے، دم ہے، پنجے ہیں، کیسی شکل ہوتی ہے؟ تو آج تک دنیا اپنے غم و خوشی کا رنگ و کلر اور میٹیریل نہیں بتاسکتی، لیکن سب کو یقین ہے، یہاں تک کہ قسم اٹھاسکتے ہیں۔ ۳) پھولوں کی خوشبو پر قسم اٹھاتے ہوکہ خدا کی قسم! رات کی رانی، بیلہ، چنبیلی کی خوشبو آرہی ہے، لیکن کبھی کسی نے خوشبو کو دیکھا ہے؟ نظر سے نہیں بلکہ سونگھ کر بتادیتے ہیں کہ یہاں خوشبو ہے ۔اور آخر میں مولانا رومی نے ایک اور زبردست دلیل پیش کی ہے۔ ۴) ایسے ہی کسی نے اپنی جان کو آج تک نہیں دیکھا، لیکن اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ آپ کے اندر جان ہے؟ توآپ قسم اٹھالیں گے کہ خدا کی قسم! میں ابھی زندہ ہوں اور دلیل یہ ہے کہ جسم میں روح ہے، ہماری روح اور جسم کا تعلق ابھی منقطع نہیں ہوا۔ لیکن آپ لوگوں نے جان کو تو نہیں دیکھا، بغیر دیکھے ہوئے اپنی روح پر ایمان لاتے ہو، لہٰذا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پوچھیں گے کہ ہم نے تمہارے اندر پرچہ آؤٹ کر دیا تھا۔ تمہارے جسم کے میٹیریل میں ہم نے روح داخل کردی تھی جس پر بغیر دیکھے تم ایمان لاتے تھے اور اس کے وجود پر قسمیں اٹھاتے تھے، لیکن ہم پر بغیر دیکھے ایمان لانے میں تم اشکال کرتے تھے۔ ایک شخص نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ سے کیسے محبت کی جائے؟ کیوں کہ بغیر دیکھے ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کیسے کریں؟ دیکھنے سے تو محبت معلوم ہوتی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ کو اپنی جان سے محبت ہے؟ اگر کوئی غنڈہ چاقو