کمزوری نہ آئے، بس دس دفعہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہْ پڑھ کر سوجاؤ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اے خدا! ہمارے جسم وقلبِ ناتواں کو اس طرح چپٹالے کہ اگر ہم آپ کو بھولنا بھی چاہیں تو بھول نہ سکیں؎
بھلاتا ہوں پھربھی وہ یاد آ رہے ہیں
بزرگوں نے لکھا ہے کہ جو تعلق مچھلی کو پانی سے ہے وہی اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کو اللہ سے ہے۔ اگر چھوٹی مچھلی سے کہا جائے کہ دریا میں بڑے بڑے گھڑیال اور مگرمچھ آئے ہوئے ہیں اور بڑی مچھلیاں بھی آئی ہوئی ہیں جو تم کو کھاجائیں گی، لہٰذا تم کچھ دن خشکی پر گزارلو، پانی سے ہٹ کر ہمارا ایک(Hut) ہے، ہمارے ہٹ میں آجاؤ۔تو مچھلی کہے گی اگر ہم پانی سے ہٹ جائیں گے، تو آپ کے ہٹ کو کیا کریں گے؟ ہم تو زندگی ہی سے ہٹ جائیں گے۔ اگر مچھلی سے کوئی کہے کہ پانی کے ساتھ گستاخی نہ کرو،یہاں لیٹرین نہ بناؤ اور زیادہ ٹھنڈ میں مت پھرو،کہیں تم کو کھانسی نزلہ نہ ہوجائے،تو مچھلی کہے گی:اے انٹرنیشنل بے وقوف! تم نے اپنی زندگی میں کبھی مچھلی کو کھانستے دیکھا ہے اور اپنے باپ داداؤں سے بھی پوچھ لو کہ کسی مچھلی کو کبھی کھانسی آئی ہے؟ کبھی شربتِ نزلہ زکام پلایا ہے اس کو۔ اب رہ گیا بڑی مچھلیاں چھوٹی کو نگل جائیں گی تو چاہے کچھ ہو، باہر تو موت یقینی ہے اور یہاں موت یقینی نہیں ہے، ممکن ہے نہ نگلیں، لیکن پانی کے باہر یقینی موت دیکھ کر ہم پانی سے نہیں نکلیں گی۔ اسی طرح اللہ کا دریائے قرب مومن کی حیات ہے اور دریائے قرب سے باہر گناہ میں یقینی موت ہے،اس لیے گناہ سے بچنے میں ساری زندگی بے کیف اور پریشان رہنا،یہ پریشانی ہماری حیات کا سبب ہے اور اللہ کی رحمت کے نزول کا سبب ہے اور گناہ کرنے سے سکون اور لذت یہ اللہ کی لعنت کا ذریعہ ہے، لہٰذا ہم گناہ کی لعنت نہیں لیں گے؎
نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے انہیں ہرگز نہ دیکھیں گے
کہ جن کو دیکھنے سے رب میرا ناراض ہوتا ہے
گجراتی کے پاس گجراتی شیطان ہوتا ہے اور عرب کے پاس عرب شیطان۔ جس ملک کا انسان ہوتا ہے اسی ملک کا شیطان بھی ہوتا ہے، لہٰذا گجراتی سے کہتا ہے کہ دیکھو تمہارے اسٹور میں وہ لڑکی ہے تم کو بہت مجا (مزہ) آئے گا، ایک نظر دیکھ تو لو کہ اللہ نے کیا ڈیزائن بنایا ہے۔ ایک صاحب نے لکھا کہ میں حسینوں کو دیکھ کر اللہ کی معرفت حاصل کرتا ہوں کہ واہ رے اللہ! کیا شان ہے آپ کی! لہٰذا دنیا کے جتنے حسین ہیں یہ سب آئینۂ جمالِ خداوندی ہیں، ان کے آئینہ