ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2016 |
اكستان |
|
آپ ہی وہ شخصیت ہیں کہ جب آپ کوئی فیصلہ فرماتے تھے تو قرآنِ کریم میں اُس کی توثیق آجاتی تھی، ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ حضور اَکرم ۖ کے سامنے اپنی رائے کااِظہار فرماتے تو عین آپ کی رائے کے مطابق قرآنِ کریم میںحکم نازل ہوجاتا، بسا اَوقات ایسا بھی ہوتا کہ آپ کی زبانِ مبارک سے جو کلمات اَدا ہوتے اللہ تعالیٰ بعینہ ویسے ہی کلمات قرآنِ کریم میں نازل فرمادیتے ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاْئُ۔ حضرت مولانا عبد الشکور لکھنوی آپ کے قرآنِ کریم سے تعلق اور آپ کی خدمت ِقرآن سے متعلق تحریر فرماتے ہیں : (١) آپ قرآنِ مجید کی تلاوت کے بڑے حریص تھے ،لو گوں سے پڑھوا پڑھوا کرسنا کرتے تھے، ظاہر ہے اُن کے ایسا کرنے سے کس قدر شوقِ تلاوت لو گوں میں پیداہوگیا ہوگا۔ ایک روز گشت کرتے کرتے مسجد کی طرف آئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، عادت آپ کی یہ تھی کہ عشا کے بعد لو گوں کو مسجد سے باہر کر دیتے تھے، ہاں اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہو تواُس کو چھوڑ دیتے تھے، آپ نے دریافت کیا کہ یہ لوگ کون ہیں اور کیوں بیٹھے ہیں ؟ معلوم ہوا کہ اُبی بن کعب اور اُن کے ساتھ چند لوگ اور ہیں جو اللہ کا ذکر کر رہے ہیں، یہ سن کر آپ اُن کے پاس بیٹھ گئے اور باری باری ہر ایک سے قرآنِ شریف پڑھوانا شروع کیا ،اَبو سعید مولائے اَبوسعد کہتے ہیں کہ سب سے آخر میں میری باری آئی تو میرے اُوپر اُن کا رُعب غالب آگیا اور زبان بند ہوگئی ،اِس کو اُنہوں نے محسوس کر لیا اور فرمایا اچھا تم دُعا مانگ لو۔ (طبقات ج ٣) (٢) خود نمازِ فجر میں بڑی سورتیں پڑھتے تھے تاکہ لوگ آپ کی قراء ت سن کر سیکھ لیں۔ (٣) رمضان ١٤ھ میں نمازِ تراویح کورائج کیا اور تمام صوبوں کے حکام کو اِس کے