ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2016 |
اكستان |
|
قسط : ٢ فضائل کلمہ طیبہ اور اُس کی حقیقت (حضرت مولانا محمد اِدریس صاحب اَنصاری رحمة اللہ علیہ ) مال کی قربانی : (١) دُنیا میں جان کے بعد مال ہی کا درجہ ہے اِنسان جو کچھ کرتا ہے اِسی کی خاطر کرتاہے لیکن لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے اِقرار کرنے والے اِس کو بھی سچ سمجھتے تھے چنانچہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کااِرادہ فرمایا اور کفارِ قریش کو آپ کی ہجرت کا علم ہوا تو یہ لوگ آپ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے جب تم مکہ میں آئے تھے اُس وقت فقیر تھے اور کوئی تم کو پوچھتا بھی نہ تھا تم ذلیل بے عزت تھے کوئی تم کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھتا تھا اب تم نے جتنی دولت جمع کی وہ ہمارے ہی اَندر رہ کر کمائی ہے اور ہمارے اَندر رہ کر جو تم نے مال کمایا ہے اُسی کے باعث تمہاری عزت بھی بنی ہے اب تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے مال و جان دونوں کوہم سے صحیح سالم بچاکر لے جاؤ توخدا کی قسم یہ ہر گز نہیں ہو سکتا، اِس پر حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے اُن سے فرمایا بتلاؤ تمہارا منشاء کیا ہے اگر میں تمام اپنی کمائی ہوئی دولت تمہارے حوالے کر دُوں اور تم کو اُس کا مالک اور مختار بنادُوں پھرتو تم کو میرے جانے کا اِعتراض نہ ہوگا ؟ کفار ِ قریش نے کہا ہاں پھر ہم کو کو ئی اِعتراض نہیں، اِس پر حضرت صہیب نے فرمایا جاؤ میں نے اپنا تمام مال تم کو دیا پھر اِن کو اپنے ساتھ لے گئے اورمکہ کے اَندر کسی مقام پرلے جا کر فرمایا کہ یہاں سے کھودو، اُنہوں نے کھودا تو وہاں سے اُن کاخزانہ مد فون تھا جب سب کچھ نکل آیا تو یہ تمام اُن کے حوالے کیا اور ایک عورت کا پتہ بتلایاکہ میرے زیورات اُس کے پاس اَمانت رکھے ہیں وہ بھی میں نے تم کو دیے تم وہاں سے لاکر اپنے اَخراجات میں جس طرح چاہو اُنہیں صرف کر دینا۔ اِس کے بعد حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے مدینہ کاراستہ اِختیار کیا اور قبا میں حضور ۖ